پندرہویں دلیل ۔ ان اللہ یبعث لھذہ الامۃ علی راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا ۔ (ابو داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المأۃو مشکوٰۃ کتاب العلم )

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
پندرہویں دلیل ۔ ان اللہ یبعث لھذہ الامۃ علی راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا ۔ (ابو داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المأۃو مشکوٰۃ کتاب العلم )

اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا

کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اُمت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک مجدد مبعوث فرمایا کرے گا جو آ کر دین کی تجدید کرے گا۔

صحتِ حدیث

(ا) ’’وَقَدْ اِتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی تَصْحِیْحِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْھُمُ الْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرَکِ وَا لْبَیْھَقِیُّ فِی الْمُدْخَلِ وَ مِمَّنْ نَصَّ عَلٰی صِحَّتِہٖ مِنَ المُتَاََخِّرِیْنَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ۔(حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۳ مطبع شاہجہانی بھوپال) کہ استادانِ حدیث کا اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے۔ ان میں سے حاکم نے مستدرک میں بیہقی نے مدخل میں اس کو لکھا ہے اور متاخرین میں سے جن لوگوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ان میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ بھی ہیں۔

(ب) ’’ھٰذَا الْحَدِیْثُ اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَی الصَّحِیْحِ مِنْھُمُ الْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرِکِ وَالْبَیْھَقِیُّ فِی الْمَدْخَلِ۔‘‘ (مرقاۃ الصعود شرح ابن داؤد زیر حدیث ھٰذا) یعنی استادان حدیث کا اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے۔ جن میں سے امام حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے مدخل میں اس حدیث کی صحت کا اقرار کیا ہے۔

(ج) علامہ سیوطی اپنے رسالہ ’’تنبیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:۔

’’اِتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی صِحَّتِہٖ۔‘‘کہ تمام محدثین اس حدیث کی صحت پر متفق ہیں۔ نیز اپنی کتاب جامع الصغیر جلد۱ صفحہ ۷۴ باب الالف میں بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

(د) حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال میں لکھا ہے:۔ ’’چنانچہ در حدیث مشہور آمدہ است اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ الخ رَوَاہُ اَبُوْ دَاوٗدَ اَلْحَاکِمُ وَالْبَیْھَقِیُّ فِی الْمَعْرِفَۃِ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ بِاِسْنَادٍ صَحِیْحٍ‘‘۔ کہ مشہور حدیث میں ہے کہ ہر صدی کے سر پر اﷲ تعالیٰ مجدد مبعوث کیا کرے گا۔ اس حدیث کو ابو داؤد اور امام حاکم اور بیہقی نے معرفہ میں ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

(ھ) یہ حدیث ابو داؤد میں ہے جو صحاح ستہ میں سے ہے۔

ضروری نوٹ:۔ بعض غیر احمدی دوست جب عاجز آ جاتے ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ مجدد کے لئے دعویٰ کرنا ضروری نہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ اس صدی کا مجدد دنیا میں موجود ہو (رشید احمد گنگوہی وغیرہ) مگر اس نے دعویٰ نہ کیا ہو۔ کیا کسی پہلے مجدد نے بھی دعویٰ مجددیت کیا ہے؟

اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ:۔

۱۔ تمام گزشتہ مجددین کی جملہ تحریرات ہمارے پاس محفوظ نہیں ہیں تا کہ ہم ہر ایک کا دعویٰ ان کی اپنی زبانی دکھا سکیں۔ ہاں جن مجددین کی بعض تحریرات محفوظ ہیں ان میں سے تین کا دعویٰ درج کیا جاتا ہے۔

ا۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:۔

صاحب ایں علوم و معارف مجدد ایں الف است کَمَا لَا یَخْفٰی عَلَی النَّاظِرِیْنَ فِیْ عُلُوْمِہٖ وَ مَعَارِفِہٖ…… و بدانند کہ بر سر مائۃ مجددی گزشتہ است، اما مجدد مائۃ دیگر است و مجدد الف دیگر۔ چنانچہ درمیان مائۃ و الف فرق است، در مجددین اینہا نیز ہما نقدر فرق است بلکہ زیادہ ازاں۔

(مکتوبات امام ربانی جلد۲ صفحہ ۱۴،۱۵ مکتوب چہارم)

ب۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی فرماتے ہیں:۔

’’قَدْ اَلْبَسَنِیَ اللّٰہُ خِلْعَۃَ الْمُجَدَّدِیَّۃِ۔‘‘

(تفہیمات الہٰیہ بحوالہ حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۸ مطبع شاہجہانپوری بھوپال)

ج۔ حضرت امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔

’’اِنِّیَ الْمُجَدِّدُ۔‘‘ (حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۸ مطبع شاہجہانپوری بھوپال)

۲۔ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ عام طور پر دعویٰ کرنا ضروری نہیں پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ چودھویں صدی کے مجدد کے لئے دعویٰ کرنا ضروری تھا۔ کیونکہ بقولِ شما ’’جھوٹا مجدد‘‘ (نعوذ باﷲ) میدان میں کھڑا للکار رہا تھا۔

’’ہائے! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے۔‘‘

(ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۶۹)

’’افسوس اِن لوگوں کی حالتوں پر۔ ان لوگوں نے خدا اور رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی اور صدی پر بھی سترہ برس گذر گئے مگر ان کا مجدد اب تک کسی غار میں پوشیدہ بیٹھا ہے۔ ‘‘

(اربعین نمبر ۳۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۹۹)

پس اگر اس وقت کوئی ’’سچا مجدد‘‘ بھی بقولِ شما بقیدِ حیات موجود تھا (جس کو خدا تعالیٰ نے اُمتِ محمدؐیہ کو گمراہی سے بچانے کے لئے مبعوث کیا ہوا تھا) تو اس کا فرض تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بالمقابل دعوٰے کر کے اُمت محمدؐیہ کو گمراہی سے بچاتا۔ ان حالات میں اس کا خاموش رہنا تو ’’اَلسَّاکِتُ عَنِ الْحَقِّ شَیْطَانٌ اَخْرَسُ‘‘ (تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۳۹۰ باب ۸۶) کے مطابق اس کو ’’گونگا شیطان‘‘ قرار دیتا ہے۔ چہ جائیکہ اس کو ’’مدعی مفقود اور گواہ موجود‘‘ کا مصداق بناتے ہوئے مضحکہ خیز طور پر ’’مجدد‘‘ قرار دیا جائے۔

فہرست مجددین اُمت محمدیہ

(۱) پہلی صدی:۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ۔

(۲) دوسری صدی:۔ حضرت امام شافعی ؒ (احمد بن حنبل)۔

(۳) تیسری صدی:۔ حضرت ابو شرحؒ و ابو الحسن الشعریؒ۔

(۴) چوتھی صدی:۔ حضرت ابو عبید اﷲ نیشاپوری و قاضی ابوبکر باقلانی رحمۃ اﷲ علیھم۔

(۵) پانچویں صدی:۔ حضرت امام غزالیؒ۔

(۶) چھٹی صدی:۔ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۷) ساتویں صدی:۔ حضرت امام ابن تیمیہ ؒ و حضرت خوا جہ معین الدین چشتی اجمیری۔

(۸) آٹھویں صدی:۔ حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ و حضرت صالح بن عمر رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۹) نویں صدی:۔ حضرت امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۱۰) دسویں صدی:۔ حضرت امام محمد طاہر گجراتی رحمۃ اﷲ علیہ۔ (حجج الکرامۃ صفحہ ۳۹۵،۳۹۶)

(۱۱) گیارہویں صدی:۔ حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ۔(حجج الکرامۃ صفحہ ۳۹۵،۳۹۶)

(۱۲) بارہویں صدی:۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۱۳) تیرہویں صدی:۔ حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۱۴) چودہویں صدی:۔ ’’و بر سر مائۃ چہاردہم کہ دہ سال کامل آنرا باقی است۔ اگر ظہورِ مہدی علیہ السلام و نزولِ عیسیٰ ؑ صورت گرفت۔ پس ایشاں مجدد و مجتہد باشند‘‘۔

(حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۵ تا ۱۳۹ مطبع شاہجہان پوری بھوپال)

کہ چودہویں صدی کے سر پر جس کو ابھی پورے دس سال باقی رہتے ہیں اگر مہدی اور مسیح موعود ؑ ظاہر ہو گئے تو وہی چودہویں صدی کے مجدد ہوں گے۔

ب۔ پس تواں گفت کہ دریں دہ سال کہ از مائۃِ ثالث عشر باقی است ظہور کند یا بر سرِ چہاردہم۔‘‘

(حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۴۱ مطبع شاہجہان پوری بھوپال)

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عین وقت (چودھویں صدی کے سر) پر ظاہر ہوئے پس اگر آپ مجدد نہیں ہیں تو کوئی اور مجدد بتاؤ۔ جو چودہویں صدی کے سر پر آیا ہو۔ اگر کوئی غیر مسلم تم سے پوچھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق چودہویں صدی کا مجدد کہاں ہے تو اسے کیا جواب دو گے؟

اب تو چودھویں صدی میں سے بھی ۷۲ برس گزر گئے۔ سچ تو یہی ہے کہ ؂

وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت

میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

(مسیح موعود ؑ)

پس خدا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت پر تبر نہ چلاؤ اور مخالفین اسلام کو اسلام پر مزید اعتراضات کرنے کا موقع نہ دو۔
 
Top Bottom