وفات مسیح کی پہلی دلیل۔ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (المائدۃ:۱۱۸)

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
وفات مسیح کی پہلی دلیل۔ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (المائدۃ:۱۱۸)

پہلی دلیل:۔

مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (المائدۃ:۱۱۸)

آیت کا لنک
مطلب:۔ اﷲ تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں کہ اے عیسیٰ! کیا تو نے نصاریٰ کو تثلیث کی تعلیم دی تھی؟ آپ انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے تعلیم تو کیا دینی تھی میری زندگی میں اور میرے سامنے یہ عقیدہ ظاہر نہیں ہوا۔ میں ان کا نگران تھا جب تک میں ان میں تھا۔ پھر جب تو نے میری توفّیکرلی تو تُو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہر چیز کامحافظ ہے۔

استدلال نمبر۱:۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے دو زمانے بتائے ہیں۔ پہلا اپنی قوم میں حاضری کا زمانہ () اور دوسرا غیر حاضری کا ()اور ان دونوں زمانوں کے درمیان حد فاصل ہے۔ گویا ان کی اپنی قوم سے غیر حاضری سے پہلے ’’وفات‘‘ ہے۔ کیونکہ غیر حاضری کی و جہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ اپنی قوم میں حاضر ہیں یا غیر حاضر؟ چونکہ غیر حاضر ہیں لہٰذا ان کی توفّی ہوچکی ہے۔

استدلال نمبر۲:۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ ؑاقرار فرماتے ہیں کہ تثلیث پرستی کا عقیدہ میری زندگی میں نہیں پھیلا بلکہ میری توفّی کے بعد پھیلا ہے اور اس زمانہ میں عیسائیوں کی تثلیث پرستی ایک کھلی حقیقت ہے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (المائدۃ:۷۴)

(المائدۃ:۱۸) کہ ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے اور ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے۔

پس صاف نتیجہ نکلا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی توفّی ہوچکی ہے یعنی وہ فوت ہوچکے ہیں۔

غیر احمدی:۔ حضرت مرزا صاحب نے چشمہ معرفت صفحہ ۲۵۴ طبع اوّل پر لکھا ہے:۔

’’انجیل پر ابھی تیس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی۔‘‘

(محمدیہ پاکٹ بک مؤلفہ مولانا محمد عبداﷲ صاحب معمار مرحوم امرتسری طبع اوّل مارچ ۱۹۵۰، صفحہ۵۷۱ طبع دوم اپریل ۱۹۸۹ء)



جواب:۔اس حوالہ میں انجیل کا ذکر ہے مسیح کی ہجرت کا ذکر نہیں اور انجیل اس وحی کے مجموعہ کا نام ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام پر ان کی وفات تک نازل ہوتی رہی جس طرح قرآن مجید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے قریب زمانہ تک نازل ہوتا رہا۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ……(النساء: ۱۶۴) یعنی اے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) ہم نے آپ پر اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح اور…………عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء پر۔ پس چشمہ معرف کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات (جو ۱۲۰ برس کی عمر میں ہوئی) کے تیس برس کے قریب گزرنے پر عیسائی بگڑ گئے۔ نہ یہ کہ حضرت عیسیٰ کی زندگی ہی میں مسیح کی پرستش شروع ہوگئی تھی۔

تَوَفِّیْ کے معنے

حضرت امام بخاریؒ نیکی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کا ارشاد نقل کیا ہے:۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ؓ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ مائدہ زیر آیت فلما توفیتنی المائدۃ:۱۱۸)



کہ حضرت ابن عباسؓ کے فیصلہ کے بعد کسی دوسرے شخص کی بات قابل قبول نہیں اس حالت میں کہ جب قرآن مجید و احادیث و لغت و تفاسیر کے مندرجہ ذیل حوالجات بھی ان کی تائیدمیں ہیں۔ (تفسیر ابن عباسؓ کے متعلق نوٹ آگے ملاحظہ فرمائیں صفحہ ۱۸۳)۔

نوٹ ۔ بعض لوگ اس کی سند پر اعتراض کرتے ہیں اس کے لیے مندرجہ زیل حوالہ دیکھیں









لفظ توفّی باب تفعل کا مصدر ہے۔ سو قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی اس کا کوئی مشتق استعمال ہوا ہے جب اﷲ تعالیٰ یا ملائکہ اس کا فائل ہوں یا صیغہ مجہول ہو اور غائب مفعول اس کا انسان ہو تو سوائے قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں اور وہ قبض روح بذریعہ موت ہے۔ سوائے اس مقام کے کہ جہاں لیل یا منام کا قرینہ موجود ہو تو وہاں قبض روح کو نیند ہی قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال قبضِ جسم کسی جگہ بھی مراد نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں علاوہ متنازعہ فیہ جگہ کے ۲۳ جگہ لفظ توفّی کا مشتق استعمال ہوا ہے۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿234﴾ لنک

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿240﴾ لنک

۱،۲۔ (دو مرتبہ البقرۃ : ۲۳۵، ۲۴۱)


رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ﴿193﴾
لنک

۳۔ (آل عمران: ۱۹۴)


وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ﴿15﴾
لنک
۴۔ (النساء: ۱۶)

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿97﴾


جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

۵۔ (النساء: ۹۸)



وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ﴿61﴾

اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے
۶۔ (الانعام: ۶۲)


فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ أُولَئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُمْ مِنَ الْكِتَابِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ ﴿37﴾


پس اُس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ گھڑے یا اس کے نشانات کو جھٹلائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں نوشتہء تقدیر میں سے اُن کا (مقدر) حصہ ملے گا یہاں تک کہ جب ہمارے ایلچی اُن کے پاس پہنچیں گے انہیں وفات دیتے ہوئے تو وہ انہیں کہیں گے کہ کہاں ہیں وہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے رہے ہو۔ (جواباً) وہ کہیں گے وہ سب ہم سے کھو گئے۔ اور وہ (خود) اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔

۷۔ (الاعراف:۳۸)


وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴿126﴾

اور تُو ہم پر کوئی طعن نہیں کرتا مگر یہ کہ ہم اپنے ربّ کے نشانات پر ایمان لے آئے جب وہ ہمارے پاس آئے۔ اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر انڈیل اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔
۸۔ (الاعراف:۱۲۷)


وَإِنْ مَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ﴿40﴾

اوراگر ہم تجھے ان اِنذاری وعدوں میں سے کچھ دکھا دیں جو ہم ان سے کرتے ہیں یا تجھے وفات دے دیں تو (ہر صورت) تیرا کام صرف کھول کھول کر پہنچا دینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے۔

۹۔ (الرعد: ۴۱)


وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ ﴿46﴾

اور اگر ہم تجھے اس (اِنذار) میں سے کچھ دکھا دیں جس سے ہم انہیں ڈرایا کرتے تھے یا تجھے وفات دے دیں تو (بہرحال) ہماری طرف ہی ان کو لَوٹ کر آنا ہے۔ پھر اللہ ہی اس پر گواہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔

۱۰۔ (یونس:۴۷)

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿101﴾

اے میرے ربّ! تو نے مجھے امورِ سلطنت میں سے حصہ دیا اور باتوں کی اصلیّت سمجھنے کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تُو دنیا اور آخرت میں میرا دوست ہے۔ مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زُمرہ میں شامل کر۔

۱۱۔ (یوسف:۱۰۲)


الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ بَلَى إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿28﴾
(اُن پر) جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کررہے ہوتے ہیں اور وہ (یہ کہتے ہوئے) صلح کی پیشکش کرتے ہیں کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کیا کرتے تھے۔ کیوں نہیں! یقیناً اللہ اس کا خوب علم رکھتا ہے جو تم کیا کرتے تھے۔
۱۲،۱۳۔ (دو مرتبہ النحل: ۲۹،۳۳)

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿32﴾

(یعنی) وہ لوگ جن کو فرشتے اس حالت میں وفات دیتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں وہ (انہیں) کہتے ہیں تم پر سلام ہو۔ جنت میں داخل ہو جاؤ اُس کی بنا پر جو تم عمل کرتے تھے۔
۱۲،۱۳۔ (دو مرتبہ النحل: ۲۹،۳۳)

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ﴿70﴾

اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا پھر وہ تمہیں وفات دے گا اور تم ہی میں سے وہ بھی ہے جو ہوش و حواس کھو دینے کی عمر تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ علم حاصل کرنے کے بعد کلیّۃً علم سے عاری ہو جائے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔
۱۴۔ (النحل:۷۱)

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ﴿5﴾

اے لوگو! اگر تم جی اُٹھنے کے بارہ میں شک میں مبتلا ہو تو یقیناً ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا تھا پھر نطفہ سے پھر لوتھڑے سے پھر گوشت کے ٹکڑے سے جسے خاص تخلیقی عمل یا عام تخلیقی عمل سے بنایا گیا تا کہ ہم تم پر (تخلیق کے راز) کھول دیں۔ اور ہم جو چاہیں رِحموں کے اندر ایک مقررہ مدت تک ٹھہراتے ہیں پھر ہم تمہیں ایک بچے کے طور پر نکالتے ہیں تا کہ پھر تم اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچو۔ اور تم ہی میں سے وہ ہے جس کو وفات دے دی جاتی ہے اور تم ہی میں سے وہ بھی ہے جو ہوش وحواس کھو دینے کی عمر تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ علم حاصل کرنے کے بعد کلیۃً علم سے عاری ہوجائے۔ اور تُو زمین کو بے آب وگیاہ پاتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ (نمو کے لحاظ سے) متحرک ہو جاتی ہے اور پھولنے لگتی ہے اور ہر قسم کے ہرے بھرے پُر رونق جوڑے اگاتی ہے۔

۱۵۔ (الحج: ۶)


قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ﴿11﴾

تُو کہہ دے کہ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہیں وفات دے گا پھر تم اپنے ربّ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۱۶۔ (السجدۃ: ۱۲)


اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿42﴾

اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جو مَری نہیں ہوتیں (انہیں) ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرتا ہے)۔ پس جس کے لئے موت کا فیصلہ کر دیتا ہے اسے روک رکھتا ہے اور دوسری کو ایک معین مدت تک کے لئے (واپس) بھیج دیتا ہے۔ یقیناً اس میں فکر کرنے والوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔

۱۷۔ (الزمر:۴۳)

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿67﴾

وہی ہے جس نے (اوّلاً) تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر لوتھڑے سے، پھر تمہیں بچے کی صورت باہر نکالتا ہے اور پھر یہ توفیق بخشتا ہے کہ تم اپنی بلوغت کی عُمر کو پہنچو تاکہ پھر یہ امکان ہو کہ تم بوڑھے ہو جاؤ اور تاکہ تم آخری مقررہ مدت تک پہنچ جاؤ۔ہاں کچھ تم میں سے ایسے بھی ہیں جنہیں پہلے ہی وفات دے دی جاتی ہے اور (یہ نظام اس لئے ہے) تاکہ تم عقل کرو۔
نوٹ۔ سورۃ مومن کو سورہ غافر بھی کہتے ہیں اور یہ 40 نمبر سورت ہے
۱۸۔ (المومن:۶۸)


فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ ﴿77﴾

پس تو صبر کر۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چاہیں تو تجھے اس اِنذار میں سے کچھ دکھا دیں جس سے ہم انہیں ڈرایا کرتے تھے یا تجھے وفات دے دیں تو بہرحال وہ ہماری طرف ہی لوٹائے جائیں گے۔

۱۹۔ (المومن:۷۸)


فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ ﴿27﴾

پس کیا حال ہوگا جب فرشتے انہیں وفات دیں گے؟ وہ ان کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگائیں گے۔
۲۰۔ (محمد:۲۸)


وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿60﴾

اور وہی ہے جو تمہیں رات کو (بصورت نیند) وفات دیتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے جو تم دن کے وقت کر چکے ہو اور پھر وہ تمہیں اُس میں (یعنی دن کے وقت) اُٹھا دیتا ہے تا کہ (تمہاری) اجلِ مسمّٰی پوری کی جائے۔ پھر اسی کی طرف تمہارا لَوٹ کر جانا ہے۔ پھر جو بھی تم کیا کرتے تھے وہ اس سے تمہیں آگاہ کرے گا۔

۲۱۔ (الانعام: ۶۱)


وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ ﴿50﴾

اور اگر تو دیکھ سکے (تو یہ دیکھے گا) کہ جب فرشتے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا وفات دیتے ہیں تو وہ ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں کو چوٹیں لگاتے ہیں اور (یہ کہتے ہیں کہ) سخت جلن کا عذاب چکھو۔

۲۲۔(الانفال: ۵۱)


قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿104﴾

تُو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تم میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو میں تو ان کی عبادت نہیں کروں گا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ لیکن میں اُسی اللہ کی عبادت کروں گا جو تمہیں وفات دیتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مومنوں میں سے ہوجاؤں۔

۲۳۔ (یونس: ۱۰۵)


کتب احادیث سے اس کی مثالیں

بخاری میں ایک باب (بخاری کتاب المناقب باب وفات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم) بھی ہے۔’’باب توفّی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ پھر آنحضرتؐ نے صاف فرمادیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی توفّی کے وہی معنے ہیں جو میری توفّی کے ہیں۔ فرمایا:۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ اِنَّہٗ یُجَاءُ بِرِجَالٍ مِّنْ اُمَّتِیْ فَیُؤْخَذُ بِھِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَاَقُوْلُ یَارَبِّ اُصَیْحَابِیْ فَیُقَالُ اِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْا بَعْدَکَ فَاَقُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ فَیُقَالُ اِنَّ ھٰؤُلآءِ لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدِّیْنَ عَلٰی اَعْقَابِھِمْ مُنْذُ فَارَقْتَھُمْ۔

(بخاری کتاب التفسیر باب و کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم جلد۳ صفحہ ۹۱ مصری و جلد۲ صفحہ ۱۵۹ کتاب بدء الخلق مصری)

ترجمہ:۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ دوزخ کی طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا کہ یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ جواب ملے گا تو نہیں جانتا کہ تیرے پیچھے انہوں نے کیا کیا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اﷲ تعالیٰ کے صالح بندے عیسیٰ ؑ نے کہا تھا کہ میں ان کا اسی وقت تک کا نگران تھا جب تک ان میں تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تُو ہی ان کا نگہبان تھا۔



نتیجہ:۔ اس حدیث سے صاف نتیجہ نکلا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی توفی کی صورت وہی ہے جو آنحضرتؐ کی توفی کی ہے۔ ورنہ آپ کا یہ فرمانا فَاَقُوْلُ کَمَا قَالَ درست نہیں رہتا۔

اب دیکھو آنحضرتؐ نے بعینہٖ وہی لفظ تَوَفَّیْتَنِیْ جو مسیح کے لئے استعمال ہوا ہے اپنے لئے استعمال فرمایا ہے۔ پس تعجب ہے کہ آنحضرتؐ کے لیے جب لفظ توفّی آئے تو اس کے معنی ’’موت‘‘ لئے جائیں مگر جب وہی لفظ حضرت مسیح ؑکے متعلق استعمال ہو تو اس کے معنے آسمان پر اٹھانا لئے جائیں۔

ایک لطیفہ:۔ اس کے جواب میں مؤلف محمدیہ پاکٹ بک لکھتا ہے:۔

’’ایک ہی لفظ جب دو مختلف اشخاص پر بولا جائے تو حسب حیثیت و شخصیت اس کے جدا جدا معنے ہوتے ہیں۔ دیکھئے حضرت مسیح اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور خدائے پاک بھی……اب کیا خدا کا نفس اور مسیح کا نفس ایک جیسا ہے‘‘

جواب:۔ گویا آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال حضرت مسیح کے بالمقابل ویسی ہی ہے جیسی مسیحؑ کی اﷲ تعالیٰ کے بالمقابل۔ اور گویا آپ کے نزدیک آنحضرتؐ کی حیثیت اور شخصیت مسیحؑ کی حیثیت اور شخصیت سے مختلف نوعیت کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف محمدیہ پاکٹ بک بھی درپردہ الوہیت مسیح کا قائل ہے۔ ورنہ آنحضرتؐ اور مسیحؑ کی حیثیت نبوت اور بشریت کے لحاظ سے نوع ہرگز مختلف نہیں اور نہ خدا کی مثال پر حضرت مسیحؑ کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔ پس غیر احمدی کا جواب محض نفس کا دھوکہ اور قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ یہ تو درست ہے کہ انسان کا قیاس خدا پر نہیں کیا جاسکتا لیکن نبی کا قیاس نبی پر اور انسان کاقیاس انسان پر تو کیا جاسکتا ہے۔ خود قرآن مجید میں ہے کہ اے محمدؐ رسول اﷲ! کہہ دے کہ میں بھی پہلے انبیاء کی طرح ایک نبی ہوں۔ نیز (اٰل عمران:۱۴۵)

پس جو معنی آنحضرتؐ کی توفی کے ہیں بعینہٖ وہی معنی حضرت عیسیٰ ؑ کی توفّی کے بھی لینے پڑیں گے۔پھر بخاری میں ہے قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ؓ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ کہ حضرت ابن عباسؓ نے مُتَوَفِّیْکَ کے معنی موت کیے ہیں۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۂ مائدہ زیر آیت ……۱۸۸)

بخاری کا حوالہ


راوی نہ ہونے کے اعتراض کا جواب حوالہ جات ( نیر احمد بٹ)








تفسیر ابن عباسؓ کی تحقیق کہ اس کی حیثیت کیا ہے ؟

نوٹ:۔ بعض غیر احمدی مولوی ’’تفسیر ابن عباسؓ ‘‘کے حوالہ سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ تو حیات مسیح کے قائل تھے اور وہ آیت (اٰل عمران:۵۶) میں تقدیم تاخیر کے قائل تھے۔ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے حضرت ابن عباسؓ کا جو مذہب پیش کیا ہے وہ اَصَحَّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ یعنی صحیح بخاری میں درج ہے جس کی صحت اور اصالت میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا مگر وہ مختلف اقوال جو دوسری تفاسیر یا ’’تفسیر ابن عباسؓ ‘‘ کے نام سے مشہور کتاب میں درج ہیں وہ قابل استناد نہیں کیونکہ ان تمام تفاسیر کے متعلق محققین کی رائے ہے کہ وہ جعلی اور جھوٹی تفسیریں جو حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب کردی گئی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے:۔

۱۔وَمِنْ جُمْلَۃِ التَّفَاسِیْرِ الَّتِیْ لَا یُؤَثَّقُ بِھَا تَفْسِیْرُ ابْنِ عَبَّاسٍ فَاِنَّہ مَرْوِیٌّ مِنْ طَرِیْقِ الْکَذَّابِیْنَ۔

(فوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ مصنفہ علامہ شوکانی صفحہ ۱۱۱ و مطبوعہ در مطبع محمدی لاہور ۱۳۰۳ھ صفحہ ۱۰۴)







اس بارے میں بعض مزید مفید حوالہ جات ۔ ( میر بحوالہ نیر احمد بٹ)



یعنی ناقابل اعتبار اور غیر معتبر تفسیروں میں سے ایک تفسیر ابن عباس بھی ہے کیونکہ وہ کذاب راویوں سے مروی ہے۔

۲۔حضرت امام سیوطیؒ فرماتے ہیں: ھٰذَہِ التَّفَاسِیْرُ الطِّوَالُ الَّتِیْ اَسْنَدُوْھَا اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ غَیْرُ مَرْضِیَّۃٍ وَ رُوَاتُھَا مَجَاھِیْلٌ(تفسیر اتقان جلد ۲ صفحہ ۱۸۸ التفسیر البسیط زیرآیت الانفال:۹) یہ لمبی لمبی تفسیریں جن کو مفسرین نے ابن عباس کی طرف منسوب کیا ہے ناپسندیدہ اور ان کے راوی غیر معتبر ہیں۔ (خادمؔ)




نوٹ۔ تفسیر ابن عباس تفصیلی کے غیر معتبر ہونے کے مزید حوالہ جات و سکین ( نیر احمد بٹ )



























10۔


11۔



تَوفّی کے معنی عرف عام میں

قرآن مجید اور احادیث کے علاوہ اگر عرف عام کو بھی دیکھا جائے تو بھی متوفّی کے معنی میّت کے ہی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پٹواری کے رجسٹر اور دیگر دفاتر کو دیکھ لو۔ اور جنازہ کی دعا میں وَ مَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِسْلَامِ کہ جس کو تو ہم میں سے وفات دے تو اس کو اسلام پر ہی وفات دے۔

جنازہ کی دعا کے اصل کتب کے سکین










تَوفّی کے معنی لغت سے

صحاح میں لفظ تَوَفِّی کے نیچے ہے تَوَفَّاہُ اللّٰہُ اَیْ قَبَضَ رُوْحَہٗ پھر لکھا ہے تُوُفِّیَ فُلَانٌ وَ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ وَ اَدْرَکَتْہُ الْوَفَاۃُ پا لیا اس کو موت نے (اساس البلاغۃ از علامہ زمحشری زیر مادہ وفی )

اَلْوَفَاۃُ الْمَوْتُ وَ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ۔ قَبَضَ رُوْحَہٗ

(قاموس جلد۴ زیر لفظ وفی از مجدالدین محمد بن یعقوب الفیروز آبادی)



تَوَفّٰہُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ اِذَا قَبَضَ نَفْسَہٗ (تاج العروس زیر لفظ وفی از محب الدین ابی فیض السید محمد مرتضیٰ الحسینی الواسطی الزبیدی الحنفی)



اَلْوَفَاۃُ الْمَنیَّۃُ وَالْوَفَاۃُ اَلْمَوْتُ وَ تُوَفِّیَ فُلَانٌ وَ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ اِذَا قَبَضَ نَفْسَہُٗ وَ فِی الصِّحَاحِ اِذَا قَبَضَ رُوْحَہٗ (لسان العرب زیر لفظ وفی از ابن منظور جمال الدین محمد بن مکرم الانصاری) جب اس کے نفس کو اﷲ تعالیٰ قبض کرے۔ اور صحاح جوہری میں بجائے نفس کے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

تَوَفَّاہُ اللّٰہُ اَیْ قَبَضَ رُوْحَہٗ (صحاح جوہری زیر لفظ تَوَفِّی)



مُتَوَفِّی۔ وفات یافتہ، مرا ہوا، انتقال کردہ شدہ، جہان سے گزرا ہوا (فرہنگ آصفیہ زیر لفظ تَوَفِّی)




بعض تراجم میں توفّی کے معنے بھر لینے کے لکھے ہیں اور اس کا مطلب بھی موت دینا ہے۔

(فرہنگ آصفیہ زیر لفظ تَوَفِّی)

تَوَفِّی کا مادہ

کلیات ابوالبقاء صفحہ ۱۲۹ زیر بحث التوفی پر لکھا ہے۔ اَلتَّوَفِّیْ۔ اَلْاِمَاتَۃُ وَ قَبْضُ الرُّوْحِ وَ عَلَیْہِ اِسْتِعْمَالُ الْعَامَّۃِ…… وَالْفِعْلُ مِنَ الْوَفَاۃِ تُوَفِّیَ عَلَی مَا لَمْ یُسَمَّ فَاعِلُہٗ لِاَنَّ الْاِنْسَانَ لَا یَتَوَفّٰی نَفْسَہٗ فَالْمُتَوَفِّیْ ھُوَاللّٰہُ تَعَالٰی اَوْ اَحَدٌ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ وَ زَیْدٌ ھُوَالْمُتََوَفّٰی۔زیر بحث ’’التوفّی‘‘ یعنی توفی کے معنی مارنے اور قبض روح کرنے کے ہیں اور عام لوگوں کا استعمال اسی معنی پر ہے اور اشتقاق اس کا وفات سے ہے۔ توفّی مجہول استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ انسان خود اپنی جان کو قبض نہیں کرتا کیونکہ مارنے والا اﷲ تعالیٰ ہے یا کوئی اس کا فرشتہ ہے اور انسان وہ ہے جس کو موت دی جاتی ہے۔



تَوفّی کے معنی احادیث سے

۱۔ قَالَ اَنَّہٗ سَیَکُوْنُ مِنْ ذٰلِکَ مَا شَاءَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ رِیْحًا طَیِّبَۃً فَیُتَوَفّٰی کُلُّ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِنْ اِیْمَانٍ فَیَبْقٰی مَنْ لَاخَیْرَ فِیْہِ فَیَرْجِعُوْن اِلٰی دِیْنِ اٰبَائِھِمْ۔ (تفسیر ابن کثیر زیرآیت توبہ:۳۴)



۲۔ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ انّہ قَالَ الْمُتَوَفّٰی عَنْھَا زَوْجُھَا لَا تَلْبِسُ الْمُعَصْفَرَۃَ مِنَ الثِّیَابِ۔الخ (مسند امام احمد بن حنبل حدیث ام سلمہ زوج النبی جلد۶ صفحہ ۳۰۲ مطبع المکتب الاسلامی بیروت)



۳۔ عَنْ عَائِشَۃَ ؓؓ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَکٰی وَ بَکٰی اَصْحَابُہٗ تُوُفِّیَ سَعْدُ ابْنُ مَعَاذٍ اِلٰی اٰخِرِہٖ رَوَاہُ ابْنُ جَرِیْرٍ۔ (کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۴۲)



۴۔اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَا اشْتَکٰی نَفَثَ عَلٰی نَفْسِہٖ بِالْمُعَوِّذَاتِ مَسَحَ عَنْہُ بِیَدِہٖ فَلَمَّا اشْتَکٰی وَجَعَہُ الَّذِیْ تُوُفِّیَ فِیْہِ طَفِقْتُ اَنْفُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ بِالْمُعَوِّذَاتِ۔ الخ (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ و وفاتہ)



۵۔اِنَّ عَائِشَۃَ ؓ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ رَاَیْتُ ثَلٰثَۃَ اَقْمَارٍ سَقَطْنَ فِیْ حُجْرَتِیْ فَقَصَصْتُ رُءْ َیایَ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍ الصَّدِّیْقِ ؓ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ دُفِنَ فِیْ بَیْتِھَا قَالَ لَھَا اَبُوْبَکْرٍ ھٰذَا اَحَدُ اَقْمَارِکِ وَ ھُوَ خَیْرُھَا۔ (مؤطا امام مالک المجلد الثانی کتاب الجنائز حدیث ۶۰۰)



۶۔ عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ قَالَتْ وَالَّذِیْ تُوُفِّیَ نَفْسُہٗ تِعْنِی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا تُوُفِّیَ حَتّٰی کَانَتْ اَکْثَرُ صَلَاتِہٖ قَاعِدًا اِلَّا الْمَکْثُوْبَۃَ۔ الخ



(مسند امام احمد بن حنبل حدیث ام سلمۃ زوج النبیؐ)

۷۔عَنْ عَائِشَۃَ ؓ اَنَّھَا قَالَتْ اَنَّ اَبَا بَکْرٍ قَالَ لَھَا یَا بُنَیَّۃُ اَیُّ یَوْمٍ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔الخ (مسند امام احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۱۱۸ مصری)



۸۔عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ؓ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ ؓ یَقُوْلُ لِطَلْحَۃَ ابْنِ عُبَیْدِاللّٰہِ مَا لِیَ اَرَاکَ قَدْ شُعِثْتُ وَاغْبَرَرْتَ مُنْذُ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الخ

(مسند امام احمد بن حنبل حدیث عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ)

۹۔ عَنْ عُثْمَانَ ؓ اَنَّ رِجَالًا مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَزِنُوْا عَلَیْہِ حَتّٰی کَادَ بَعْضُھُمْ یُوَسْوِسُ وَ کُنْتُ منْھُمْ فَقُلْتُ لِاَبِیْ بَکْرٍ تَوَفَّی اللّٰہُ نَبِیَّہٗ ۔الخ (کنزالعمال جلد۷ مصری صفحہ۷۳ مصری)




تَوفّی کے لیے انعامی اشتہار

چونکہ متنازعہ فیہ جگہ میں تَوَفِّی بابِ تَفَعُّل سے ہے اور اﷲ تعالیٰ فاعل ہے اور ذی روح یعنی حضرت عیسیٰ ؑ مفعول ہیں اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی صورت میں تَوَفِّی کے معنے سوائے قبضِ روح کے دکھانے والے کو ایک ہزار روپیہ انعام مقرر فرمایا ہے مگر آج تک کوئی مردِ میدان نہیں بنا جو یہ انعام حاصل کرتا، اور نہ ہی ہوگا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ۔

بعض غیر احمدی مولوی کہا کرتے ہیں کہ تم نے توفّی کے متعلق یہ قاعدہ کہاں سے لیا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ فاعل کوئی ذی روح مفعول ہو تو اس کے معنی قبض روح یا موت کے ہوتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قاعدہ کوئی من گھڑت قاعدہ نہیں ہے بلکہ کتب لغت میں مذکور ہے جیساکہ قاموس، تاج العروس اور لسان العرب میں ہے۔

۱۔ تَوَفّٰہُ اللّٰہُ۔ قَبَضَ رُوْحَہٗ (قاموس زیر لفظ وفی) یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس ذی روح کی توفّی کی یعنی اس کی روح قبض کرلی۔ اس حوالہ میں لفظ توفّی باب تفعل سے ہے۔اﷲ فاعل مذکور ہے اور ہٗ کی ضمیر بھی جو ذی روح کی طرف پھرتی ہے اس کے معنے قبض روح صاف طور پرلکھے ہیں۔

اسی طرح تاج العروس زیر لفظ وفی جلد۲۰ اور لسان العرب زیر لفظ وفی کے حوالے پہلے صفحہ۱۸۴ پر درج ہوچکے ہیں۔

۲۔ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ اَیْ قَبَضَ رُوْحَہٗ۔ اﷲ تعالیٰ نے فلاں شخص کی توفّی کی، یعنی اس کی روح کو قبض کیا۔ (صحاح الجوہری از اسماعیل بن حماد الجوہری الجزء السادس زیر لفظ وفی)

۳۔ استقراء کے طور پر یہ قاعدہ ہے، اس کے خلاف ایک مثال ہی بموجب شرائط پیش کرو۔ جو یقینا ناممکن ہے (خادم)

غیر احمدیوں کے عذر کا جواب

محمدیہ پاکٹ بک از مولانا محمد عبداﷲ صاحب معمار امرتسری صفحہ ۵۴۶، ۵۴۷ مطبع المکتبہ السفلیہ شیش محل روڈ لاہور پر جو تَوَفِّی کے معنے تفسیر بیضاوی اور تفسیر کبیر کے حوالہ سے اَلتَّوَفِّیْ۔ اَخْذُ الشَّیْیءٍ وَافِیًا اور تَوَفَّیْتُ مِنْہُ دَرَاھِمِیْ مذکور ہیں۔ ان ہر دو مثالوں میں توفّی کا مفعول ذی روح نہیں۔بلکہ پہلی مثال میں شَیْء اور دوسری میں درھم غیر ذی روح مفعول ہے۔ مگر اور میں مفعول حضرت عیسیٰ ؑ ذی روح ہیں۔

براہین احمدیہ کے حوالہ کا جواب

اسی طرح محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۵۱۵ پر براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۹ حاشیہ کے حوالہ سے جو ترجمہ آیت: کا بدیں الفاظ درج کیا گیا ہے کہ ’’میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا۔‘‘



وہ حجت نہیں کیونکہ اسی براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ پر کا ترجمہ ’’وفات دوں گا‘‘ بھی درج ہے جو درست ہے۔ ’’نعمت دوں گا‘‘ والا ترجمہ لائق استناد نہیں کیونکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ وہ ترجمہ مستند نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں:۔

الف۔’’یاد رہے کہ براہین احمدیہ میں جو کلماتِ الٰہیہ کا ترجمہ ہے وہ بباعث قبل از وقت ہونے کے کسی جگہ مجمل ہے اور کسی جگہ معقولی رنگ کے لحاظ سے کوئی لفظ حقیقت سے پھیرا گیا ہے یعنی صَرْف عَنِ الظَّاہِرکیا گیا ہے……پڑھنے والوں کو چاہیے کہ کسی ایسی تاویل کی پروا نہ کریں‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ حاشیہ صفحہ ۹۳)


RUHANI_KHAZAIN_VOL_21_0092.png


68 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


ب:۔ ’’ مَیں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے تَوَفّی کے معنے ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں جس کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے الہامی غلطی نہیں۔ مَیں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلاً جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں گو مَیں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خدا تعالیٰ قائم نہیں رکھتا مگر یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ مَیں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کر سکتا۔ خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کاکلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ سہو و نسیان لازمۂ بشریت ہے۔ ‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۲۷۱، ۲۷۲)

69 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
71 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

RUHANI_KHAZAIN_VOL_14_0270.png

RUHANI_KHAZAIN_VOL_14_0271.png


ج۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ ایام الصلح کی عبارت میں تحریر فرمایا ہے وہ قرآن مجید و احادیث نبوی کے عین مطابق ہے کیونکہ یہی بات خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا:۔

مَا حَدَّثْتُکُمْ عَنِ اللّٰہِ سُبْحٰنَہٗ فَھُوَ حَقٌّ وَ مَا قُلْتُ فِیْہِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِیْ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اُخْطِیُٔ وَ اُصِیْبُ۔ (نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحہ ۳۹۲) کہ جوبات میں اﷲ تعالیٰ کی وحی سے کہوں تو وہ درست ہوتی ہے (یعنی اس میں غلطی کا امکان نہیں) لیکن جو بات میں اس وحی الٰہی کے ترجمہ و تشریح کے طور پر اپنی طرف سے کہوں تو یاد رکھو کہ میں بھی انسان ہوں، میں اپنے خیال میں غلطی بھی کرسکتا ہوں۔




مزید حوالہ جات ۔ (نیر احمد بٹ )








تفصیل کے لیے دیکھو پاکٹ بک ہذا۔ الہامات پر اعتراضات کا جواب صفحہ ۴۱۸

اسی طرح بخاری میں بھی ہے۔ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب التو جہ نحو القبلۃ حیث کان) کہ میں بھی انسان ہوں، تمہاری طرح مجھ سے بھی نسیان ہوجاتا ہے۔



تَوَفِّیْ کے معنی تفاسیر سے

۱۔ تفسیر خازن جلد نمبر۱ پر ہے۔ اَلْمُرَادُ بِالتَّوَفِّیْ حَقِیْقَۃُ الْمَوْتِ۔ یعنی تَوَفِّیْ سے مراد موت کی حقیقت ہے۔ (تفسیر خازن الجزء الاول زیر آیت اذ قال اﷲ یعیسیٰ……آل عمران:۵۵)



۲۔ تفسیر کبیرپر لکھا ہے۔ مُتَوَفِّیْکَ کے معنے ہیں۔ مُتَمِّمُ عُمْرَکَ فَحِیْنَئِذٍ اَتَوَفَّاکَ فَلَا اَتْرُکُھُمْ حَتّٰی یَقْتُلُوْکَ۔(تفسیر کبیر جلد ۸ صفحہ ۶۷۔زیر آیت اذ قال اﷲ یعیسیٰ……۔ آل عمران: ۵۶)



۳۔ تفسیر در منثور جلد ۲ صفحہ ۳۶ مطبوعہ مصر پر لکھا ہے۔ اَخْرَجَ ابْنُ جَرِیْرٍ وَ ابْنُ الْمُنْذِرِ وَ ابْنُ اَبِیْ حَاتِمٍ مِنْ طَرِیْقِ عَلِیٍّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہٖ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ یَقُوْلُ اِنِّیْ مُمِیْتُکَ۔ یعنی ابن عباسؓ مُتَوَفِّیْکَ کے معنی مارنے والا کرتے ہیں۔



۴۔ تفسیر فتح البیان الجزء الرابع زیر آیت ما قلت لھم الا ما امرتنی بہ…… پر لکھا ہے۔ کے نیچے قِیْلَ ھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ اللّٰہَ سُبْحٰنَہٗ تَوَفّٰہُ قَبْلَ اَنْ یَّرْفَعَہٗ یعنی خدا تعالیٰ نے عیسیٰ ؑ کو اٹھانے سے قبل وفات دے دی تھی۔



۵۔الف۔ تفسیر کشاف جلد۱ صفحہ ۳۰۶پر مُتَوَفِّیْکَ کے معنے لکھے ہیں وَ مُمِیْتُکَ حَتْفَ اَنْفِکَ یعنی طبعی موت سے مارنے والا ہے۔ (الکشاف جلد۱ زیر آیت اذ قال اﷲ یعیسیٰ……آل عمران:۵۵)



۶۔ب۔تفسیر مدارک برحاشیہ خازنزیر آیت و اذ قال اﷲ یعیسیٰ……آل عمران:۵۵



۷۔ تفسیر سر سید احمد خاں صاحب جلد ۲ صفحہ۱۹۳ زیر آیت فلما توفیتنی……المائدۃ:۱۱۷ ’’پھر جب تو نے مجھ کو فوت کیا، تو تُو ہی ان پر نگہبان تھا۔‘‘



۸۔ تفسیر فتح البیان زیر آیت انی متوفیک پر ہے زیر آیت مُتَوَفِّیْکَ۔قَالَ اَبُوْ زَیْدٍ مُتَوَفِّیْکَ قَابِضُکَ…… وَالْمَعْنٰی کَمَا قَالَ فِی الْکَشَّافِالخ اس نے بھی کشاف کے معنوں کو قبول کیا ہے اوروہ گزر چکے ہیں۔



۹۔ تاج التفاسیر جلد۱ صفحہ ۴۹ زیر آیت (البقرۃ: ۲۳۵) اَیْ یَمُوْتُوْنَ مِنْکُمْ۔

۱۰۔ سراج التفاسیر جلد۱ صفحہ ۱۴۵۔اَیْ یَمُوْتُمُوْنَ۔



۱۱۔ مجمع البیان جلد۱ ۔ اَیْ یُقْبَضُوْنَ وَ یَمُوْتُوْنَ۔

(جز ۲ صفحہ ۳۳۷ زیر آیت والذین یتوفون منکم و یزرون ازواجا……)



۱۲۔فتح البیان الجزء الثانی زیر آیت والذین یتوفون منکم……۔ وَالْمَعْنٰی اَلَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ۔

۱۳۔ در الاسرار جلد ۱ صفحہ ۴۰۔ لِوَرُوْدِ حَمَامِھِمْ۔

۱۴۔ ترجمۃ القرآن تفسیر عبداﷲ چکڑالوی صفحہ ۲۰۲ اور جو لوگ مرجاویں گے تم میں سے۔

۱۵۔ روح البیان ۔ اَیْ یَمُوْتُوْنَ وَ یُقْبَضُ اَرْوَاحُھُمْ بِالْمَوْتِ۔ (زیر آیت والذین یتوفون منکم……)

۱۶۔ فتح البیان تفسیر سورۃ النساء زیر آیت ان الذین توفاھم الملائکۃ……۔اَلَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمْ اَیْ تُقْبَضُ اَرْوَاحُھُمْ۔



۱۷۔ فتح البیان زیر آیت اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا……۔ اَیْ یَقْبَضُ الْاَرْوَاحَ عِنْدَ حَضُوْرِ اٰجَالِھَا۔



۱۸۔ روح المعانی جلد ۵ صفحہ ۴۰۹ ۔ اَیْ مِنْکُمْ مَنْ یَمُوْتُ مِنْ قَبْلِ الشَّیْخُوْخَۃِ بَعْدَ بُلُوْغِ الرُّشْدِ اَوْ قَبْلَہٗ۔ ایضاً

۱۹۔ روح البیان ۔ یُقَالُ تَوَفّٰہُ اللّٰہُ قَبَضَ رُوْحَہٗ کَمَا فِی الْقَامُوْسِ…… وَ مَعْنَی الْاٰیَۃِ یَقْبِضُ اللّٰہُ الْاَرْوَاحَ الْاِنْسَانِیَّۃَ عَنِ الْاَبْدَانِ۔ الخ
(زیر آیت اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا……)




۲۰۔ روح البیان جلد۳ صفحہ ۷۴۔ قَالَ فِی الصِّحَاحِ تَوَفَّاہُ قَبَضَ رُوْحَہٗ وَالْوَفَاۃُ اَلْمَوْتُ۔ (نیا ایڈیشن جلد۸ صفحہ۱۱۳)




۲۱۔ روح البیان جلد۳ صفحہ ۴۶۸ یُقْبَضُ رُوْحُہٗ وَ یَمُوْتُ۔



۲۲۔ روح البیان زیر آیت فاما نرینک بعض الذی نعدھم۔ اگر بمیرانیم ترا پیش از ظہور آں عذاب۔



۲۳۔ روح البیان جلد۲ صفحہ ۳۴۱۔ اَیْ یَقْبِضُ اَرْوَاحَھُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ وَاَعْوَانُہٗ۔



۲۴۔ روح البیان جلد۲ صفحہ ۲۵۳۔ اَیْ نَقْبِضُ رُوْحَکَ الطَّاھِرَۃَ قَبْلَ اِرَاءَ ۃِ ذٰلِکَ۔ (نیا ایڈیشن جلد ۴ صفحہ ۳۸۸۔ تفسیر سورۃ الرعد:۴۱)



۲۵۔ روح البیان زیر آیت منک من یتوفی……۔ اَیْ یُقْبَضُ رُوْحُہٗ وَ یَمُوْتُ بَعْدَ بُلُوْغِ الرُّشْدِ اَوْ قَبْلَہٗ……وَالتَّوَفِّیْ عِبَارَۃٌ عَنِ الْمَوْتِ وَ تَوَفَّاہُ اللّٰہُ قَبَضَ رُوْحَہٗ۔



۲۶۔ روح البیان زیرآیت توفنی مسلمًا۔ اَیْ اِقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ مُخْلِصًا بِتَوْحِیْدِکَ۔

۲۷۔ انوار التنزیل مصنفہ قاضی ناصر الدین عبداﷲ البیضاوی حاشیہ صفحہ ۳۲۴ مطبع دارالجیل بیروت۔ اِقْبِضْنِیْ۔




مفسرین کو غلطی لگی ہے

فتح البیان جلد ۲ صفحہ ۴۹ زیر آیت مُتَوَفِّیْکَ لکھا ہے:۔

وَ اِنَّمَااحْتَاجَ الْمُفَسِّرُوْنَ اِلٰی تَاْوِیْلِ الْوَفَاۃِ بِمَا ذُکِرَ لِاَنَّ الصَّحِیْحَ اَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی رَفَعَہٗ اِلَی السَّمَاءِ مِنْ غَیْرِ وَفَاتٍ کَمَا رَجَّحَہٗ کَثِیْرٌ مِّنَ الْمُفَسِّرِیْنَ وَاخْتَارَہٗ اِبْنُ جَرِیْرِ الطَّبْرِیُّ وَ وَجْہُ ذٰلِکَ اَنَّہٗ قَدْ صَحَّ فِی الْاَخْبَارِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نُزُوْلُہٗ وَ قَتْلُہُ الدَّجَّالَ۔ یعنی کہتے ہیں کہ مفسرین نے جو وفات عیسیٰ ؑ کی نص کی تاویلیں کی ہیں اس کی و جہ یہ ہے کہ انہوں نے حدیثوں میں ان کے لیے نزول کا لفظ دیکھا اور ان کے قتل دجال کا بیان پڑھا۔
حالانکہ نزول سے آسمان پر جانا اور قتل دجال کے ذکر سے بعینہٖ ان کا زندہ رہنا ثابت نہیں ہوتا۔




(تفصیل اپنی جگہ پر دیکھیں)
 
Last edited:
Top Bottom