وفات مسیح علیہ السلام از احادیث

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
وفات مسیح علیہ السلام از احادیث

۱۔ لَوْکَانَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی حَیَّیْنِ لَمَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔

(تفسیر ابن کثیر زیر آیت آل عمران: ۸۱، و الیواقیت والجواہر شرح مواہب اللدنیہ جزء سادس صفحہ ۱۶۳ دارالمعرفۃ بیروت لبنان و فتح البیان حاشیہ جلد ۲ صفحہ ۲۴۶ و طبرانی کبیر)

ترجمہ:۔ اگر موسیٰ ؑو عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو ان کو میری پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا۔

(نیز البحرالمحیط سورۃ الکہف استدلال بر وفات خضر)

۲۔ لَوْکَانَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی فِیْ حَیَاتِھِمَا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ۔

(مدارج السالکین مصفنفہ امام ابن قیم جلد ۲ صفحہ ۳۱۳ و بشاراتِ احمدیہ

مصنفہ علی حائری شیعہ صفحہ ۲۴ و براہین محمدیہ برحاشیہ بشارات احمدیہ صفحہ ۴۲)

ترجمہ:۔ اگر موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو ضرور آنحضرتؐ کے اتباع میں ہوتے۔

۳۔ لَوْ کَانَ عِیْسٰی حَیًّا مَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔ (شرح فقہ اکبر مصری صفحہ ۱۰۰ طبع اول)

ترجمہ:۔ اگر عیسیٰ ؑ زندہ ہوتا تو اسے میری پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا۔

نوٹ:۔ غیر احمدی علماء نے اس حدیث میں(النساء:۴۷) کے مطابق یہودیانہ خصلت کو پورا کرکے تحریف کردی ہے۔ شرح فقہ اکبر کا جو نسخہ ہندوستان میں چھپا ہے اس میں انہوں نے بجائے عیسیٰ کے موسیٰ کردیا ۔ اور اس تحریف کی و جہ یہ بتاتے ہیں کہ شرح فقہ اکبر مصری ایڈیشن میں کتابت کی غلطی سے ’’موسیٰ‘‘ کی بجائے ’’عیسیٰ‘‘ لکھا گیا تھا۔ ہم نے ہندوستانی ایڈیشن میں درست کردیا ہے۔ لیکن یہ عذر کس قدر غیر معقول ہے اس کا علم اس امر سے ہوسکتا ہے کہ شرح فقہ اکبر صفحہ۹۹ و ۱۰۰ پر جہاں یہ حدیث ہے موسیٰ ؑ کا ذکر ہی نہیں بلکہ بحث حضرت عیسیٰ ؑ اور امام مہدی کی آمد کی ہے۔ پھر موسیٰ ؑکا نام اس موقعے پر آنا قرین قیاس ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ ہم مکمل حوالہ نقل کردیتے ہیں:۔

’’یَجْتَمِعُ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ بِالْمَھْدِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ قَدْ اُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَیُشِیْرُ الْمَھْدِیْ لِعِیْسٰی بِالتَّقَدُّمِ فَیَمْتَنِعُ مُعَلِّلًا بِاَنَّ ھٰذِہِ الصَّلٰوۃُ اُقِیْمَتْ لَکَ فَاَنْتَ اَوْلٰی بِاَنْ تَکُوْنَ الْاِمَامُ فِیْ ھٰذَا الْمُقَامِ وَ یَقْتَدِیْ بِہٖ لِیُظْھِرَ مُتَابِعَتَہٗ لِنَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا أَشَارَ اِلَی ھٰذَا الْمَعْنِیْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہٖ لَوْ کَانَ عِیْسٰی حَیًّا مَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔‘‘ (شرح فقہ اکبر ملا علی قاری صفحہ ۱۰۰ مطبوعہ مصر)

ترجمہ:۔ حضرت عیسیٰ ؑ مہدی کے ساتھ ملیں گے، نماز کی اقامت کہی جائے گی تب مہدی آگے کھڑا ہونے کے لئے حضرت عیسیٰ ؑ کو اشارہ کریں گے مگر حضرت عیسیٰ ؑ اس عذر پر انکار کریں گے یہ نماز آپ کی خاطر قائم کی گئی ہے پس اس و جہ سے آپ امامت کے زیادہ حقدار ہیں۔ پس حضرت عیسیٰ ؑ امام مہدی کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں گے تا کہ حضرت عیسیٰ ؑ اس بات کو ظاہر کردیں کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع ہیں جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ’’ اگر عیسیٰ ؑ زندہ ہوتا تو اس کو میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘

اب دیکھ لیں اس موقعے پر حضرت عیسیٰ ؑ کے آنحضرتؐ کی متابعت کرنے کا ذکر ہے نہ کہ موسیٰ ؑ کی متابعت کا؟

پس مصری ایڈیشن میں جو عیسیٰ کا لفظ ہے وہ ’’کاتب کی غلطی‘‘ نہیں بلکہ ہندوستانی ایڈیشن میں ’’موسیٰ‘‘ کا لفظ لکھنا یقینا تمہاری خیانت کا نتیجہ ہے۔ (خادمؔ)

۴۔ اَخرَجَ الطَّبْرَانِیْ فِی الْکَبِیْرِ بِسَنَدِ رِجَالٍ ثِقَاتٍ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا……اِنَّ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ عَاشَ عِشْرِیْنَ وَمِائَۃَ سَنَۃٍ رَوَاہُ الْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرَکَ۔

(بحوالہ حجج الکرامہ صفحہ ۴۲۸ و مواہب اللدنیہ جلد۱ صفحہ ۴۲ و جلالین زیر آیت راوی ابن عمرؓ حاشیہ)

ترجمہ: تحقیق عیسیٰ بن مریمؑ ایک سو بیس سال تک زندہ رہے۔ نیز دیکھو ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۲ صفحہ۴۹۔

۵۔ اِنَّ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ عَاشَ عِشْرِیْنَ وَمِائَۃً وَ اِنِّیْ لَا أُرَانِیْ اِلاَّ ذَاھِبًا عَلٰی رَأْسِ السِتِّیْنَ۔ (کنزالعمال الجزء۱۱ کتاب الفضائل فضائل سائرالانبیاء صلوات اﷲ و سلامہ……)

ترجمہ: فرمایا حضرت نبی کریم ؐ نے کہ تحقیق عیسیٰ ابن مریم ۱۲۰ سال تک زندہ رہا تھا اور میں غالباً ۶۰ سال کی عمر کے سر پر کوچ کروں گا۔

غیر احمدی:۔ ’’اس روایت کا ایک راوی ابن لُہَیْعَہ سخت ضعیف ہے۔‘‘(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۶۲۳ طبع ۱۹۵۰ء)

جواب:۔ یہ حدیث ایک طریق سے نہیں بلکہ کم از کم تین طریقوں سے مروی ہے یعنی حضرت عائشہؓ، حضرت ابن عمرؓ اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؓسے۔ اور یہی امر اس حدیث کے صحیح ہونے کا ثبوت ہے۔ ابن لُہَیْعَہ تو ایک طریق کا راوی ہے مگر دوسرے طریقوں کے متعلق تمہارا کیا جواب ہے؟ خصوصاً اس کا کیا جواب جو لکھا ہے:۔

اَخرَجَ الطَّبْرَانِیْ فِی الْکَبِیْرِ بِسَنَدِ رِجَالٍ ثِقَاتٍ(حجج الکرامہ صفحہ ۴۲۸) اس حدیث کے راوی سب کے سب ثقہ ہیں۔

۲۔ باقی رہا ابنِ لُہَیْعَہ ۔ سو اس کی نسبت اسی تہذیب التہذیب میں جس کا حوالہ تم نے دیا ہے لکھا ہے:۔

سَمِعْتُ الثَّوْرِیْ یَقُوْلُ عِنْدَ ابْنِ لُھَیْعَۃَ الْاُصُوْلُ وَ عِنْدَنَا الْفُرُوْعُ۔ قَالَ یَعْقُوْبُ ابُنُ عُثْمَانَ سَمِعْتُ اَحْمَدَ ابْنَ صَاِلحٍ وَ کَانَ مِنْ خِیَارِ الْمُتَّقِیْنَ وَ یُثْنِیْ عَلَیْہِ……وَ قَالَ الْحَاکِمُ اسْتَشْھَدَ بِہٖ مُسْلِمٌ فِیْ مَوْضِعَیْنِ……وَ حَکٰی السَّاجِیْ عَنْ اَحْمَدَ ابْنِ صَالِحٍ کَانَ ابْنُ لُھََیْعَۃَ مِنَ الثِّقَاتِ……قَالَ ابْنُ شَاھِیْنَ قَالَ اَحْمَدُ ابْنُ صَالِحٍ ابْنُ لُھَیْعَۃَ لَثِقَۃٌ۔

(تہذیب التہذیب جزء الثالث مطبع دار احیاء التراث العربی ذکر عبداﷲ بن لہیعہ صفحہ ۲۴۲تا۲۴۴)

ٰؑیعنی ثوری نے کہا کہ ابن لہیعہ کے پاس اصول ہیں اور ہمارے پاس فروع۔ اور بقول یعقوب بن عثمان ابن لہیعہ کی تعریف احمد بن صالح نے کی ہے، اور امام حاکم نے کہا ہے کہ ابن لہیعہ سے امام مسلم نے بھی دو مواقع پر اشتہار کیا ہے اور ساجیؔ اور ابن شاہین کہتے ہیں کہ احمد بن صالح نے کہا ہے کہ ابن لہیعہ ثقہ راوی ہے۔

نیز لکھا ہے:۔ قَالَ اَبُوْ دَاوٗدَ عَنْ اَحْمَدَ وَ مَا کَانَ مِثْلَ ابْنِ لُھَیْعَۃَ بِمِصْرَ فِیْ کَثْرَۃِ حَدِیْثِہٖ وَضَبْطِہٖ وَ اَتْقَانِہٖ۔ (تہذیب التہذیب جلد۵ صفحہ ۳۷۵)

کہ ابو داوٗد نے احمد سے نقل کیا ہے کہ تمام مصر میں ابن لہیعہ کے برابر کوئی شخص بھی حدیث کی کثرت اور مضبوطی روایت اور تقویٰ کے لحاظ سے نہ تھا۔

باقی مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے جو قول احمد کا ابن لہیعہ کے غیر ثقہ ہونے کی تائید میں نقل کیا ہے اس کے آگے ہی لکھا ہے وَ ھُوَ یُقَوِّیْ بَعْضُہٗ بِبَعْضٍ (تہذیب التہذیب جلد۵ صفحہ ۳۷۵) کہ ابن لہیعہ کی ایک روایت کو دوسری روایت سے تقویت پہنچتی ہے۔

پس حدیث متنازعہ ایسی ہی ہے جو صرف ایک طریق سے مروی نہیں بلکہ تین مختلف طرق سے مروی ہے۔ پس نہایت ثقہ اور مضبوط ہے وہوالمراد۔

۶۔ مَا مِنْ مَنْفُوْسَۃٍ فِی الْیَوْمِ یَاْتِیْ عَلَیْھَا مِائَۃُ سَنَۃٍ وَ ھِیَ یَوْمَئِذٍ حَیَّۃٌ۔

(کنز العمال جلد۷ صفحہ ۱۷۰۔ راوی جابر و مسلم کتاب نمبر۱)

ترجمہ:۔ آج کوئی جاندار ایسا نہیں کہ اس پر سو(۱۰۰) سال آوے اور وہ فوت نہ ہو بلکہ زندہ ہو۔ یعنی سو سال کے اندر ہر جاندار انسان جانور وغیرہ مرجائیں گے۔ پس حضرت عیسیٰ ؑ بھی فوت ہوگئے۔

۷۔قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ لِلّٰہِ رِیْحًا یَبْعَثُھَا عَلٰی رَأْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ تَقْبِضُ رُوْحَ کُلِّ مُؤْمِنٍ۔ ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الْاَسْنَادِ۔

(مستدرک کتاب الفتن والملاحم صفحہ ۴۵۷ مطابع النصر الحدیثیۃ الریاض)

ترجمہ:۔ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ ہر سو(۱۰۰) سال کے بعد ایک ایسی ہوا بھیجتا ہے جو ہر مومن کی روح قبض کر لیتی ہے ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

پس حضرت مسیحؑ بھی بو جہ مومن ہونے کے اس ہوا کی زد سے نہیں بچ سکتے۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں زمین یا آسمان کی کوئی قید نہیں ہے۔

۸۔ ابن مردویہ نے ابوسعید سے روایت کیا کہ:۔

اٰدَمُ فِی السَّمَاءِ الدُّنْیَا تُعْرَضُ عَلَیْہِ اَعْمَالُ ذُرِّیَّتِہٖ وَ یُوْسُفُ فِی السَّمَاءِ الثَّانِیَۃِ وَ اَبْنَآءُ الْخَالَۃِ یَحْیٰ وَ عِیْسٰی فِی السَّمَآءِ الثَّالِثَۃِ وَ اِدْرِیْسُ فِی السَّمَآءِ الرَّابِعَۃِ وَ ھَارُوْنُ فِی السَّمَآءِ الْخَامِسَۃِ وَ مُوْسٰی فِی السَّمَآءِ السَّادِسَۃِ وَ اِبْرَاھِیْمُ فِی السَّمَآءِ السَّابِعَۃِ۔

(کنزالعمالکتاب الفضائل فضائل سائر الانبیاء صلوات اﷲ و سلامہ علیھم اجمعین)

ترجمہ:۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ آدم پہلے آسمان پر ہے، اس پر اس کی اولاد کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور یوسف دوسرے آسمان پر ہے اور پھوپھی زاد بھائی یحیٰی و عیسیٰ دونوں تیسرے آسمان پر ہیں اورحضرت ادریس چوتھے آسمان میں اور ہارون پانچویں میں اور موسیٰ چھٹے میں اور حضرت ابراہیم ساتویں آسمان پر ہیں۔

اگر حضرت عیسیٰ ؑ بجسد عنصری زندہ آسمان پر ہیں تو کیا باقی سارے انبیاء کو بھی اسی جسم سے زندہ ماننے کے لئے تیار ہو؟ جب نہیں اور ہرگز نہیں تو اکیلے حضرت عیسیٰ ؑکی کیاخصوصیت ہے کہ آپ سب سے نرالے زندہ ہیں؟

۹۔ اختلاف حلیتین

آنحضرتؐ نے پہلے مسیحؑ کا حلیہ فَاَمَّا عِیْسٰی فَاَحْمَرُ جَعْدٌ۔ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اﷲ تعالیٰ ھل اتاک حدیث موسیٰ) ترجمہ:۔ سرخ رنگ، گھنگریالے بال۔

اور مسیح قاتلِ دجال کا حلیہ:۔فَاِذَا رَجُلٌ اٰدَمُ کَاَحْسَنِ مَا یُرٰی مِنْ اٰدَمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتُہٗ بَیْنَ مَنْکَبَیْہِ رَجِلُ الشَّعْرِ۔ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اﷲ تعالیٰ ھل اتاک حدیث موسیٰ)

ترجمہ:۔ یعنی ایسا آدمی جو گندم گوں آدمیوں میں سے خوبصورت تر، اس کے بال اس کے کندھوں پر پڑتے ہیں اور وہ سیدھے بالوں والا ہے۔

ایک آدمی کے دو حلیے نہیں ہوسکتے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ دو الگ الگ آدمی ہیں۔ مسیح ناصری اور مسیح موعود۔

پس پہلا مسیح فوت ہوچکا ہے اور آنیوالا مسیح اسی امت میں سے ہے جیسا کہ ’’اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ‘‘ سے ثابت ہے۔

۱۰۔ (الف) اَوْحَی اللّٰہُ تَعَالٰی اِلٰی عِیْسٰی اَنْ یَا عِیْسَی انْتَقِلْ مِنْ مَکَانٍ اِلٰی مَکَانٍ لِئَلَّا تُعْرَفَ فَتُؤْذٰی۔ (کنزالعمالکتاب الاخلاق من قسم الاقوال ۶۸۴۹)

ترجمہ:۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف وحی کی کہ اے عیسیٰ! تُو ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جا۔ تا ایسا نہ ہو کہ تو پہچانا جائے اور تجھے تکلیف دی جائے۔

(ب) (عَنْ جَابِرٍؓ) کَانَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یُسِیْحُ فَاِذَا اَمْسٰی یَأْکُلُ بَقْلَ الصَّحْرَاءِ وَ شَرِبَ مَاءَ الْقَرَاحِ۔ (کنزالعمال کتاب الاخلاق من قسم الاقوال۶۸۴۹)

ترجمہ:۔ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریمؑ زمین کی سیاحت کیا کرتے تھے اور جنگل کی سبزیاں اور چشموں کا صاف پانی پیا کرتے تھے۔
 
Top Bottom