عیسیٰ مسیح ناصریؑ کی نبوت غیر تشریعی تھی تشریعی نہیں

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
عیسیٰ مسیح ناصریؑ کی نبوت غیر تشریعی تھی تشریعی نہیں

اس بات کے ثابت ہو چکنے کے بعد کہ قرآن شریف میں دو قسم کی نبوتوں کا ذکر ہے۔ ایک تشریعی اور ایک غیر تشریعی اب میں اللہ تعالیٰ کی تائید سے ثابت کرتا ہوںکہ حضرت مسیح ناصری کی نبوت غیر تشریعی تھی ۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۔

یعنی یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ تو کسی دین پرنہیں اورنصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی کسی دین پر نہیں ۔ حالا نکہ وہ دونوں کتاب پڑھتے ہیں ۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کتاب کالفظ استعمال فرمایا ہے جو واحد ہے اگر انجیل بھی کتاب ہوتی یاحضرت مسیح ؑ پرکوئی شریعت اتری ہوتی۔تواللہ تعالیٰ تو اللہ تعالی و ھم یتلون الکتاب نہ فرماتا بلکہ یہ فرماتا کہ و ھم یتلون الکتب یعنی وہ ایسا کیوں کہتے ہی حالانکہ وہ دونوں گروہ کتابیں پڑھتے ہیں۔ کتاب کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودونصاری کی ایک ہی شریعت ہے اورحضرت مسیح ناصری کوئی نئی شریعت نہیں لائے۔

اورکوئی کہے کہ یتلون الکتاب دونوں گروہو ں کی طرف منسوب ہے اوراس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں حالانکہ یہودی بھی ایک کتاب پڑھتے ہیں اورنصاریٰ بھی ایک کتاب پڑھتے ہیں تویہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ یہودی انجیل کو قطعاخدا کی کتاب نہیں مانتے اور نہ اس بات کے قائل ہیں کہ تورات کے بعد کوئی اور شریعت آئی ہے ۔ پس ان پریہ کہ کر حجت قائم کرنا مکہ تم نصاریٰ کو کیوں برا کہتے ہو حالانکہ وہ بھی تو ایک شریعت کے پابند ہیں درست نہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص کسی مسلمان کو کہے کہ تم ہندووں کو کیوں براکہتے ہو حالانکہ وہ بھی تو وید کو مانتے ہیں ۔ مسلمان تو اسے یہ جواب دے گا کہ جب میں وید کو قابل عمل مانتا ہی نہیں تو میں اسپر عمل کرنے والے کو نیک کیونکر مان لوں ۔اس لئے یہ دلیل بھی درست نہیں ہوسکتی۔ اور بہر حال یہی معنے کرنے پڑیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ایک دوسرے کی ایسی ہجو کیوں کرتے ہو کہ اس میں کوئی نیکی ہی نہیں ۔ حالانکہ دونوں ایک کتاب پر عمل کرتے ہو۔ اس آیت کے علاوہ قرآن شریف میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح کو فرماتا ہے ۔

اذ علمتک الکتاب والحکمت والتورات والانجیل یعنی یاد کرجب تجھے میں نے کتاب اورحکمت اور تورات اور انجیل سکھائی۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انجیل شریعت کی کتاب نہیں۔ کیونکہ اگر انجیل شریعت کی کتاب تھی توپھر تورات سکھانے کے کیا معنے ہوئے جبکہ مسیح کو نئی شریعت کی کتاب ملی تھی ۔ تو کچھ ضرورت نہ تھی کہ انہیں تورات بھی سکھائی جاتی ۔ تورات کا سکھایا جانا ثابت کرتا ہے کہ وہ منسوخ نہ ہوئی تھی اور اس پرعمل کرنا حضرت مسیح پر فرض تھا ۔ اور اسی لئے آپ کو اس کا علم دیاگیا۔ورنہ مانناپڑے گا کہ سب انبيا کواپنے سے پہلے کی سب کتب کی تعلیم دی جاتی رہی ہے اور یہ بھی مانناپڑے گا کہ حضرت مسیح کو صحف ابراہیم و نوح وغیرہ بھی سکھائے گئے تھے ۔لیکن اس کاقرآن مجید میں ذکر نہیں ۔ اسی طرح اس ثبوت دینا ہوگا کہ رسول کریم کو پہلی سب کتب سماوی کاان کی اصل صورت میں علم دیاگیاتھا۔ اور ان کو تورات و انجیل وغیرہماکی بھی تعلیم دی گئی تھی ۔ اگر یہ نہیں تو کیا وجہ ہوئی کہ حضرت مسیح کوتورات کی تعلیم دی گئی ۔ جب انکو انجیل مل گئی تھی توپھرتو رات کا بے فائدہ بوجھ ان پرکیوں رکھا گیا اور تورات پرعمل کر نا کیوں موقوف کیاگیا اور اگر کوئی کہے بعض باتیں تورات کی تبدیل کر کے انجیل میں نئی بیان کی گئی تھیں اوربعض زیادتیاں تھیں اس لے اصل کتاب قائم رکھی گئی اور دونوں پرعمل کرنا ضروری قرار دیاگیا۔ تواس پراول تو یہ اعتراض آتا ہے کہ کیوں نہ نئے سرے سے ساری شریعت اتاری گئی کیونکہ موجودہ صورت میں حضرت مسیح جیسے

شریعت اتاری گئی کیونکہ موجودہ صورت میں حضرت مسیح جیسے ایک اولو العزم نبی کو حضرت موسیٰ کا امتی بننا پڑا کیونکہ انہیں اکثر باتوں میں انکی شریعت پر عمل کرنا پڑا۔ دوسرا خطرناک اعتراض یہ پڑتا ہے کہ ہمارے آنحضرت ﷺ کو بھی جو کتاب دی گئی ہے یعنی قرآن شریف وہ بھی ساری کی ساری نئی نہیں بلکہ پہلی کتابوں کے بعض وقتی احکام کو مٹا کر ان کی جگہ دوامی اور عام قانون رکھے گئے ہیں اور ان کی بعض کمیوں کو دور کر کے اسے کا مل بنایا گیا ہے ۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی سنت یہ تھی کہ بغیر نئی کتاب بھیجنے کے تبدیل شده حصہ بھیج دیتا ہے تو کیوں بجائے ایک نئی کتاب نازل کرنے کے حضرت مسیح کی طرح آپ پربھی ترمیم کردہ حصہ نازل کیاگیا۔ اس طرح یہودیوں اور عیسائیوں کو آپ پرایمان لانےمیں آسانی بھی ہو جاتی ۔ لیکن یہ سب خیالات شیطانی ہیں ۔ اللہ تعالی ٰ اپنی حکمتیں بہتر جانتا ہے اور اس کی سنت یہی ہے کہ جب وہ کوئی نئی کتاب بھیجتا ہے تو اسے نئے رنگ اور نئے کمال کے ساتھ بھیجتا ہے اور ایک مشکوک کتاب کے پیچھے ڈالکر اپنے بندونکو ۃلاک نہیں کرتا اور یہ بات بالکل غلط ہے کہ اس نے حضرت مسیح کو تورات کا ترمیم شدہ حصہ دے کر مبعوث کیا بلکہ وہ تورات پربکلی عامل تھے اور انجیل میں صرف اخلاقی تعلیم اور آئیندہ آنے والے نبیوں کی پیشگوئیاں ہیں۔علاوه ازیں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً

یعنی اسکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک شاہد ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہے جو امام اور رحمت ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی سچائی کے ثبوت میں فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی آپ پر شاہد ہے اور حضرت مسیح ؑ کا ذکر نہیں کیا ۔ حالانکہ بشارت رسول کریم تو انہوں نے بھی دی ہے لیکن چونکہ انکی کتاب شریعت کی کتاب نہ تھی اس کا ذکر نہیں کیا اگر وہ بھی شریعت کی کتاب ہوتی تو فرمانا یوں چاہیے تھ کہ و من قبلہ کتاب عیسیٰ و موسیٰ لیکن اللہ تعالیٰ کی کتاب نقصوں سے پاک ہے اور غلطی انسانوں کی سمجھ سے پیدا ہوتی ہے ۔

انجیل کی تائید

اگرچہ انجیل محرف و مبدل کتاب ہے لیکن قرآن شریف کی تصدیق کے لیے اس کا حوالہ دینا جائز ہو سکتا ہے اور کچھ بھی نہیں تو ایک تاریخی ثبوت کے طور پر اسے مانا جائے گا۔ حدیث شریف میں اہل کتاب کی نسبت لکھا ہے کہ لا تصدقوھم ولا تکذبوھم لیکن جبکہ ان کی کتب قرآن شریف کی تصدیق کرتی ہوں تو مزید توضیح کے لیے ان کا حوالہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے چنانچہ انجیل میں حضرت مسیح کا اس معاملہ میں اپنا فیصلہ ان الفاظ میں درج ہے ۔

یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب موقوف کرنے کو آی ۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بککہ پوری کر نے کو آیا ہوں کیو ں کہ میں تم سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان و زمین ٹل نہ جائیں ایک نکتہ یا ایک شوشہ تورات کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔ ( متی باب ۵-آیت 17، 18)

سب کچھ پورا نہ ہو سے مرادیہ ہے کہ جب تورات کے مطابق آخری زمانہ کانبی نہ آ جائے ۔ کیونکہ اسوقت تورات منسوخ ہوجائے گی ۔

انصار اللہ توجہ کریں

میرے پیارے دوستو وقت نازک ہے ۔ اور ایک عظیم الشان کام کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے مگر افسوس ہے کہ بیچ میں بہت سستی واقع ہوگئی ہے۔ لیکن اب امید ہے ان شاء اللہ الفضل کی وساطت سے مجھے آپ کو بار بار یاددهانی کا موقعہ ملے گا۔ اٹھو اور اُٹھ کر دنیا کو دکھا دو کہ تمہارے پاس حق ہے خدا پر ایمانوں کو مضبوط کرو اور اپنے عہدوں کو پورا کرو۔ رپورٹ لکھنے کی سستی کو ترک کر دو۔ اور اپنے اعمال کے اشتہار سے لوگوں میں اسلام کی اشاعت کرو خدا تمہارے ساتھ ہو۔
 
Top Bottom