عدَمِ رَجُوع مَوتی ۔ مردے دنیا میں واپس نہیں آتے

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
عدَمِ رَجُوع مَوتی
مردوں کا اس دنیا میں دوبارہ نہ آنا!

از روئے قرآنِ کریم

پہلی آیت

(الانبیاء:۹۶) یعنی ہر ایک فوت شدہ بستی پر واجب ہے کہ وہ اس دنیا کی طرف واپس نہ آئیں گے۔

دوسری آیت

(یٰس:۳۲)

کیا ان کو معلوم نہیں کہ ہم نے کس قدر لوگ ان سے پہلے ہلاک کئے اور پھر وہ دوبارہ ان کی طرف نہیں آتے۔

تیسری آیت

(یٰس:۵۱) جب موت آجاتی ہے تو نہ وصیت کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوبارہ اپنے اہل و عیال کی طرف آسکتے ہیں۔

چوتھی آیت

(المؤمنون:۱۰۰، ۱۰۱)کہ یہاں تک کہ ان میں سے جب ایک مر جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس لٹا دے تاکہ میں اعمال صالحہ بجا لاؤں (لیکن ) یہ بات ہر گز نہ ہوگی۔ یہ صرف ایک بات ہے جو وہ منہ سے کہہ رہاہے اور ان کے پیچھے ایک روک ہے قیامت کے دن تک۔ یعنی وہ دنیا میں ہرگز نہیں آسکتے۔

پانچویں آیت

(الزمر:۴۳) اﷲ تعالیٰ روکے رکھتا ہے اس نفس کو جس پر موت کو وارد کرتا ہے، اور سونے والے نفس کو واپس بھیجتا ہے۔ یعنی مردہ نفس دوبارہ کبھی نہیں آتا۔

چھٹی آیت

(البقرۃ:۱۶۸) یعنی کہیں گے وہ جنہوں نے پیروی کی بتوں کی، کاش! ہمارے لئے بھی دنیا میں لوٹنا ہوتا تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہوجاتے جیسے یہ (آج) ہم سے بیزار ہوئے۔ یعنی افسو س کہ دنیا میں ہمیں دوبارہ نہ لوٹایا گیا۔

ساتویں آیت

(المؤمنون:۱۶،۱۷) پھر پیدائش کے بعد تم مرو گے اور مر کر پھر قیامت کے دن ہی اٹھائے جاؤ گے۔ اس سے پہلے ہر گز نہ اٹھائے جاؤ گے۔

آٹھویں آیت

(الانعام:۲۸)کہ جب کفار آگ پر کھڑے کئے جائیں گے تو وہ کہیں گے اے کاش ! ہم دوبارہ دنیا میں لوٹائے جاتے تو نہ اﷲ کی آیات کا انکار کرتے بلکہ مومنوں میں سے ہوتے۔

نوٹ:۔ اس جگہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ تو کفار کے لئے ہے مومن لوٹائے جا سکتے ہیں، تو یاد رہے کہ عقلاً اگر دنیا میں کوئی لوٹایا جانا چاہئے تو وہ کفار ہی ہیں تاکہ وہ اپنی اصلاح کر لیں۔ مومنوں کو تو آنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پس جب کفار بھی لوٹائے نہ جائیں گے تو ماننا پڑے گا کہ کوئی بھی اس دنیا میں (واپس) نہ آئے گا۔

ایک اور طرح سے استدلال

قرآنِ کریم سے ثا بت ہے کہ مرنے والے انسان کی روح بعد از مرگ فوراً اپنے اعمال کے مطابق جزا سزا پانے لگ جاتی ہے۔ مومنوں کی ارواح اعلیٰ عِلّیین میں اور منکرین کی اسفل السّافلین میں بھیج دی جاتی ہیں۔

ضرورت

اس مضمون کی دو جگہ ضرورت ہوتی ہے ایک تو تب جب وفاتِ مسیح عقلاً نقلاً ثابت ہونے پر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہوا اگر مر گئے تو خدا تعالیٰ پھر زندہ کر دے گا۔ دوسرے عجوبہ پسند لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کو محی الاموات حقیقی معنو ں میں مانتے ہیں۔ تو اس مضمون سے دونوں کی تردید ہو جاتی ہے۔


عدمِ رجُوع مَوتیٰ از احادیث

۱۔قَالَ یَا عَبْدِیْ تَمَنَّ عَلَیَّ اُعْطِکَ قَالَ یَا رَبِّ تُحْیٖنِیْ فَاُقْتَلْ فِیْکَ ثَانِیَۃً قَالَ الرَّبُّ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی اِنَّہٗ قَدْ سَبَقَ مِنِّیْ اِنَّھُمْ لَا َیرْجِعُوْنَ فَنَزَلَتْ

۔الاٰیۃ (رواہ الترمذی۔بحوالہ مشکوٰۃ کتاب المناقب باب جامع المناقب) کہ اﷲ تعالیٰ نے شہید جابرؓ کے باپ کو فرمایا کہ کوئی آرزو کر۔ ا س نے کہا، اے میرے رب مجھے دنیاوی زندگی بخش کہ تیرے راستہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں۔ فرمایا کہ یہ تو میرا قانون ہو چکا ہے کہ یہاں سے دنیا کی طرف نہیں لوٹیں گے۔

۲۔ وَ قُلْنَا ادْعُ اللّٰہَ یُحْیِیْہِ لَنَا فَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لِصَاحِبِکُمْ……اِذْھَبُوْا فَدْفِنُوْا صَاحِبَکُمْ (رواہ مسلم بحوالہ مشکوٰۃ مجتبائی صفحہ ۳۶۰باب ما یحل اَکْلُہٗ وما یحرم )کہ ایک آدمی فوت شدہ کے متعلق صحابہؓ نے آنحضرتؐ کی خدمت میں عرض کی کہحضور! دعا فرمائیں کہ یہ زندہ ہو جائے تو آپ نے فرمایا۔ تمہیں چاہیئے کہ اب اس کے لئے دعائے مغفرت کرو اور دفن کر دو۔

اس حدیث سے صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ اس دنیا میں زندہ کر کے نہیں بھیجتا، انبیاء بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ احباب غور کریں کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑ فی الواقعہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تو سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیوں نہ کیا ؟محض اس لئے کہ خدا کے قانون کے برخلاف ہے۔ ھٰذَا ھُوَ الْمُرَادُ ۔

عدم رجوع موتیٰ پر اجماع امت ہے

کیونکہ کسی حدیث اور تفسیر اور فقہ وغیرہ میں کسی مسلمان نے ایسے احکام بیان نہیں کئے کہ اگر مردہ دوبارہ لوٹ آئے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ بیوی، مال وغیرہ اس کو ملے گا یا نہیں ؟ پس شریعت کے باوجود مکمل ہونے کے اور فقہاء کا بھی اس کا ذکر نہ کرنا صاف بتاتا ہے کہ یہ عقیدہ ہی باطل ہے۔ وہُوَ المقصود۔
 
Top Bottom