سولھویں دلیل ۔ اني رسول الله اليكم مصدقا لما بين يدي من التوراة ومبشرا برسول ياتي من بعدي اسمه احمد ۔ الصف 6

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
سولھویں دلیل ۔ واذ قال عيسى ابن مريم يا بني اسرائيل اني رسول الله اليكم مصدقا لما بين يدي من التوراة ومبشرا برسول ياتي من بعدي اسمه احمد فلما جاءهم بالبينات قالوا هذا سحر مبين ۔ الصف 6

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ

اور جب عیسیٰ بن مریمؑ نے کہا۔ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اﷲ کا رسول ہوں۔ تصدیق کرتا ہوں اس کی جو میرے سامنے ہے یعنی تورات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔

ان آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے احمد رسول کی آمد کی بشارت دی ہے۔ اور صرف اس کا نام بتانے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی بعض نہایت ضروری علامات بھی بیان فرما دی ہیں۔ اس پیشگوئی کے حقیقی مصداق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں بلکہ آپ کا غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں:۔

پہلی و جہ:۔ ان آیات کے ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:۔ (الصف:۸) کہ اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اﷲ پر جھوٹ باندھے (الہام کا جھوٹا دعویٰ کرے) اور وہ بلایا جائے گا اسلام کی طرف۔

اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ جب احمد رسول اﷲ آئے گا تو لوگ اس کی مخالفت کریں گے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر احمد رسول اﷲ (نعوذ باﷲ) فی الواقعہ خدا کی طرف سے نہیں تو اندریں صورت وہ مفتری علی اﷲ ٹھہرتا ہے اور مفتری علی اﷲ سے بڑھ کر اور کوئی ظالم نہیں ہو سکتا۔ اور جو ظالم ہو اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ (الانعام:۲۲) کہ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ نیز (النحل:۱۱۷) کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے ہیں اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پس اگر احمد رسول فی الواقعہ اپنے دعویٰ میں سچا نہیں تو اندریں صورت اس کو اسلامی تعلیم کی رو سے ناکام و نامراد ہو جانا چاہیے مگر وہ اپنے تمام دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے اپنے تمام مقاصد میں کامیاب و کامران ہو گا اور اس کی کامیابی اور کامرانی قطعی طور پر ثابت کر دے گی کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق ہے اور اسلامی تعلیم کی رو سے وہ حق پر اور اس کے مخالفین ناحق پر ہیں۔ مگر باوجود اس واضح طریق فیصلہ کے پھر بھی اس کو اس کے مخالفین دعوت اسلام دیں گے اور کہیں گے کہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے۔ پس آ اور مسلمان ہو جا۔ اس طرح وہ احمد رسول جو اسلامی تعلیم کی رو سے مفتری علی اﷲ ثابت نہیں ہوا الٹا اسلام کی طرف دعوت دیا جائے گا۔ پس پہلی نشانی جو اس احمد رسول کی بتائی گئی ہے وہ کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف دعوت دیا جائے گا۔ اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:۔

ا۔ وہ احمد رسول ایسے زمانہ میں آئے گا جبکہ دنیا میں اسلام کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ پہلے سے موجود ہوں گے گویا وہ خود بانیٔ اسلام نہیں ہو گا۔

ب۔ اس کے مخالفین اس پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے اور خود کو حقیقی مسلمان قرار دیں گے۔

پس مندرجہ بالا علامات صاف طور پر بتا رہی ہیں کہ اس پیشگوئی کا حقیقی مصداق ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلام، احمدؑ کے متعلق ہے کیونکہ

۱۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے مخالف اپنے آپ کو اسلام کے مدعی قرار نہیں دیتے تھے۔

۲۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بانیٔ اسلام ہیں۔ آپؐ کے مخالفین نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان قرار نہیں دیا اور نہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو غیر مسلم قرار دے کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسلام کی طرف دعوت دی۔

نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہیے کہ میں کی ضمیر کا مرجع خواہ ’’‘‘ اور ’’‘‘کو قرار دیا جائے اور خواہ ’’احمد‘‘ کو قرار دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں حقیقی مرجع ’’احمد‘‘ ہی بنتا ہے اور کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ میں جس شخص کی طرف اشارہ ہے۔ وہ وہی ہے جس پر ’’مفتری علی اﷲ‘‘ ہونے یعنی الہام کا جھوٹا دعویٰ کرنے کا الزام ہے اور جس کی اس الزام سے بریت مقصود ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ احمد رسول ہی ہے جس کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ (النمل:۱۴) کہ درحقیقت یہ خدا کا رسول نہیں بلکہ جادوگر ہے اور جادو کی مدد سے یہ نشانات دکھاتا ہے۔ پس میں احمد رسول کے منکروں کا ذکر نہیں بلکہ خود احمد رسول کی بریت کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اس احمد رسول پر مفتری ہونے کا الزام لگاتے ہو حالانکہ مفتری سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوتا اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت سے ثابت ہے کہ یہ ’’ظالم‘‘ نہیں۔ کیونکہ اپنے مقاصد میں کامیاب و کامران ہے۔ پس میں کی ضمیر کا مرجع بہرحال ’’احمد رسول‘‘ ہی ہے نہ کوئی اور۔

دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی نے جادوگر قرار نہیں دیا۔ سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے دشمنوں نے ’’جادوگر‘‘۔ ’’ساحر‘‘۔ رمّال اور نجومی قرار دیا ہے۔ چند حوالہ جات درج ذیل ہیں:۔

۱۔ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اپنی سرقہ کردہ کتاب موسومہ ’’سیف چشتیائی‘‘ میں لکھتے ہیں:۔

’تمہارے تیس سال کے سحروں اور شعبدہ بازیوں کو دفعۃً ہی نگل گیا۔‘‘

(سیف چشتیائی از مہر علی گولڑوی صفحہ ۱۰۷)

۲۔ ’’معلوم ہوا کہ اب تک ساحر قادیانی کا گھر نحوستوں سے بھرا ہوا ہے۔‘‘

(تکذیب براہین احمدیہ مصنفہ لیکھرام جلد ۲ صفحہ ۲۹۸مطبع دھرم پرچارک جلندھر)

۳۔ ’’یہی ساحر قادیانی ہے۔‘‘ (ایضًا صفحہ ۳۰۰)

۴۔ مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتا ہے:۔

’’اگرچہ یہ پیشگوئی (متعلقہ وفات احمد بیگ۔ خادم) تو پوری ہو گئی۔ مگر یہ الہام سے نہیں بلکہ علم رمل یا نجوم وغیرہ سے کی گئی تھی۔‘‘

(اشاعۃ السنہ بحوالہ اشتہار ۶؍ ستمبر ۱۸۹۴ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۳۹)

۵۔ ایک مخالف مولوی پنجابی شعر میں کہتا ہے ؂

جادوگر ہے ساحر بھارا، مسمریزم جانے

رمل نجوم تے ہور بہتیرے کسبی علم پچھانے

(بجلی آسمانی مصنفہ مولوی فیض محمد ؐ صفحہ ۱۲۳)

یعنی مرزا قادیانی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) جادوگر اور ساحر ہیں اور مسمریزم اور رمل و نجوم وغیرہ علوم خوب جانتے پہچانتے ہیں۔

دوسری و جہ:۔ ’’۔‘‘(الصف:۹) کہ لوگ چاہیں گے کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر خدا تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرے گا۔

اس آیت میں (جو والی آیت کے ساتھ ہی ملحق ہے) اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ احمد رسول کا زمانہ وہ ہو گا جس میں اسلا م کو تلوار کے زور سے مٹانے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ بلکہ مزعومہ دلائل کے ساتھ اسلام کا مقابلہ کیا جائیگا۔ گویا منہ کی پھونکیں ماری جائینگی۔ سو یہ علامت بھی صاف طور پر بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی پیشگوئی کے مصداق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاص غلام۔ احمد رسول اﷲ ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا زمانہ منہ کی پھونکوں کا نہ تھا بلکہ لوگ اسلام کو تلواروں کی طاقت سے مٹانا چاہتے تھے۔ لیکن آج دلائل مزعومہ کے زور یعنی منہ کی پھونکوں سے اسلام کو بجھایا جا رہا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ حاسد سلسلہ رسوائے عالم اخبار ’’زمیندار‘‘ کے ٹائٹل پر بھی یہ شعر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ؂

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

تیسری و جہ:۔ یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت ہے:۔ ’’الخ‘‘کہ وہی اﷲ ہے جس نے احمد رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسلام کو تمام دوسرے دینوں پر غالب کر دے۔

اس آیت کے متعلق تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے۔ کیونکہ اسلام کا یہ موعودہ غلبہ اسی کے زمانہ میں ہو گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:۔

ا۔ ’’وَیُھْلِکُ اللّٰہُ فِی زَمَنِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّاالْاِسْلَامَ‘‘

(ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج دجال قبل یوم القیامۃ)

کہ اﷲ تعالیٰ مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں تمام جھوٹے دینوں کو نیست و نابود کرکے صرف اسلام کو قائم کر ے گا۔

ب۔ ابن جریر میں ہے:۔

’’ ………… ذَالِکَ عِنْدَ خُرُوْجِ عِیْسٰی۔‘‘ (ابن جریر زیر آیت …… الخ الصّف:۹) کہ اس آیت میں جس غلبۂ اسلامی کا ذکر ہے وہ مسیح موعود ؑ کی بعثت کے بعد واقع ہو گا۔

نیز دیکھو تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۵۳۸ سورۃ صف زیر آیت بالا۔

ج۔ نیز لکھا ہے:۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ قَوْلِہٖ الخ قَالَ حِیْنَ خُرُوْجِ عِیْسٰی۔‘‘

(ابن جریر زیر آیت …… الخ الصّف:۹)

کہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس آیت کے متعلق فرمایا کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے ظہور کے بعد ہو گا۔ پس ثابت ہے کہ یہ آیت ساری کی ساری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کی پیشگوئی ہے۔ نہ کسی اور کی۔

چوتھی و جہ:۔ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مثیل موسیٰؑ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیلِ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے مثیل کی پیشگوئی کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مثیل (مسیح موعودؑ) کی۔

پانچویں و جہ:۔ یہ کہ اس پیشگوئی کا قرآن مجید میں ذکر کرنے سے مقصود بخیال غیر احمدیاں صرف عیسائیوں پر اتمامِ حجت کرنا اور احمد رسول کی صداقت کی ایک دلیل دینا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا والدین نے جو نام رکھا وہ احمد نہیں بلکہ محمدؐ تھا۔ عیسائی تو ہرگز نہیں مانتے کہ آپؐ کا نام احمد تھا۔ کسی مدعی کا یہ کہنا کہ اﷲ نے میرا نام یہ رکھا ہے اس کے ماننے والوں کے لئے تو حجت ہو سکتا ہے لیکن اس کے منکروں پر ہرگز حجت نہیں ہو سکتا اور جو پہلے ہی مانتا ہے اس کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں اور جو نہیں مانتا اس کے لئے یہ دعویٰ دلیل نہیں بن سکتا۔ پس اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا جائے تو یہ عیسائیوں کے لئے کوئی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔ لہٰذا اس کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ پس اس پیشگوئی کا مصداق وہی ہے جس کے نام کا ضروری حصہ احمد ہے۔ صفاتی نام نہیں بلکہ ذاتی نام (عَلَم) ہے۔

بیشک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک صفاتی نام ’’احمد‘‘ بھی ہے مگر یہ آپ کا تعلق انسانوں سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ہے جس کو کوئی انسان خودبخود نہیں دیکھ سکتا۔ کیونکہ ’’احمد‘‘ کے معنی ہیں ’’سب سے زیادہ تعریف کرنے والا۔‘‘ اور محمد کے معنی ہیں ’’سب سے زیادہ تعریف کیا گیا۔‘‘ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ خدا تعالیٰ کی سب سے زیادہ حمد اور تعریف کرنے والے ہیں۔ اس لئے آپ صفاتی طور پر احمد ہیں لیکن دنیا کے ساتھ آپ کا تعلق محمدؐیت کا ہے۔ پس ایک عیسائی کے لئے آپ کی شانِ احمدیت کو سمجھ کر اس پر ایمان لانا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم انسانوں کے محمدؐ ہیں اور احمدؐ اﷲ تعالیٰ کے ہیں۔

نوٹ:۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام حضورؐ کے والدین نے یا حضورؐ کے داد ا نے بوقتِ پیدائش احمد رکھا تھا مگر ان تمام روایات کے متعلق یاد رکھنا چاہییکہ یہ سب ’’موضوع‘‘ روایات ہیں۔ ان میں سے اکثر ’’واقدی‘‘ کی ہیں۔ جو جھوٹی حدیثیں گھڑنے والوں کا استاد ہونے کی و جہ سے ’’رئیس الوضّاعین‘‘ کہلاتا ہے۔ چنانچہ ان روایات کے متعلق حضرت امام محمد شوکانی لکھتے ہیں:۔ وَمِنْھَا اَحَادِیْثُ الَّتِیْ تُرْوٰی فِیْ تَسْمِیَّۃِ اَحْمَدَ لَا یُثْبَتُ مِنْھَا شَیْءٌ۔

(فوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ للشوکانی صفحہ ۱۴۶/۱۰۸)

یعنی بعض وہ روایات ہیں جن میں یہ ذکر آتا ہے کہ حضورؐ کا نام احمد رکھا گیا تھا، لیکن ان روایات سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔

چھٹی و جہ:۔ یہ ہے کہ لفظ محمد کے معنے ہیں کہ ’’سب سے زیادہ تعریف کیا گیا۔‘‘ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ’’محمد‘‘ ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ کوئی شخص آپ کا ’’احمد‘‘ (سب سے زیادہ تعریف کرنے والا) ہو۔ گویا خود لفط ’’محمد‘‘ میں یہ پیشگوئی ہے کہ کوئی انسان دنیا میں احمد ہو کر آئے گا۔ جو اس نبی عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ تعریف کرے گا۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہم صفاتی طور پر ’’احمد‘‘ مانتے ہیں۔ لیکن یہ تعلق آپؐ کا خدا سے ہے، مگر یہ پیشگوئی (والی) عیسائیوں پر اتمام حجت کے لئے بیان کی گئی ہے۔ اور عیسائی اس تعلق کو جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا سے ہے جان یا مان نہیں سکتے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس پیشگوئی کا وہی مصداق ہو جو ظاہری طور پر احمد ہو یعنی جس کا عَلَم احمد ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام احمد تھا۔ ’’غلام احمد‘‘ کے لفظ میں لفظ ’’غلام‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے اکثر ناموں کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ غلام مرتضیٰ، غلام قادر، غلام مجتبیٰ وغیرہ اور ظاہر ہے کہ عَلَم وہی ہوتا ہے جو تمیز واقع ہو اور ’’غلام احمد‘‘ میں سے تمیز احمد ہے۔ پس وہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عَلَم ہے۔

چنانچہ اس کا دوسرا زبردست ثبوت یہ ہے کہ آپ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب بھی آپ کا نام احمد ہی سمجھتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کے نام پر جو دو گاؤں آباد کئے ان کے نام ’’قادر آباد‘‘ اور ’’احمد آباد‘‘ علیٰ الترتیب مرزا غلام قادر اور غلام احمد علیہ السلام کے نام پر رکھے۔

غیر احمدی:۔ میں لَمَّا ماضی پر آیا ہے اور جب ماضی پر لَمَّا داخل ہو تو اس کے معنی ہمیشہ ماضی ہی کے ہوتے ہیں۔ مستقبل کے نہیں ہو سکتے۔

احمدی:۔ یہ قاعدہ درست نہیں۔ قرآن مجید میں ہے۔ (الملک:۲۸) کہ جب وہ قیامت کو دیکھیں گے تو کافروں کے منہ خراب ہو جائیں گے۔

اس آیت میں ماضی ہے اور اس پر لَمَّا داخل ہوا ہے۔ مگر یہ مستقبل (یعنی قیامت) کے متعلق ہے۔ بعینہٖ اسی طرح بھی مستقبل کے متعلق ہے۔

نوٹ:۔ حدیث ’’اَنَا بَشَارَتُ عِیْسٰی‘‘ میں جس بشارت کا ذکر ہے وہ سورۃ صف والی بشارت نہیں۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے درحقیقت دو نبیوں کی بشارت دی ہے۔ (۱) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی۔ (۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی۔ چنانچہ انجیل میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق جو بشارت ہے وہ ان الفاظ میں ہے۔ اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے۔‘‘ (یوحنا ۳۰؍۱۴۔ و یوحنا۷۔۱۴؍۱۶) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بشارت کا اپنے آپ کو مصداق قرار دیا ہے۔ (تفصیل مضمون ’’آنحضرتؐ کی نسبت بائبل میں پیشگوئیاں‘‘ پاکٹ بک ھٰذا میں دیکھو۔)
 
Top Bottom