دوسری دلیل ۔ ولو تقول علينا بعض الاقاويل۔ لاخذنا منه باليمين۔ ثم لقطعنا منه الوتين ۔ الحاقہ 44۔ 46

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
دوسری دلیل ۔ ولو تقول علينا بعض الاقاويل۔ لاخذنا منه باليمين۔ ثم لقطعنا منه الوتين ۔ الحاقہ 44۔ 46

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ۔ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ

کہ اگر یہ کوئی جھوٹا الہام بنا کر میری طرف منسوب کرتا (اور کہتا کہ یہ الہام مجھے خدا کی طرف سے ہوا ہے ) تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑکر اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔

گویا اگر کوئی شخص جھوٹا الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ قتل ہو جاتا اور چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمجو صداقت کی کسوٹی ہیں۔ آپ ۲۳ سال دعویٰ وحی و الہام کے بعد زندہ رہے اس لیے کوئی جھوٹا مدعی ٔ الہام و وحی نبوت اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا۔جتنا عرصہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم رہے ۔

۱۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کے ماتحت بدلیل استقراء ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی جھوٹے مدعی ٔ نبوت و الہام کو دعویٰ کے بعد ۲۳ سال کی مہلت نہیں ملی۔چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اربعین میں ۵۰۰ روپیہ انعام کا وعدہ بھی کیا ہے مگر آج تک کسی کو جرأت نہیں ہوئی۔توریت میں بھی یہی لکھا ہے کہ ’’ جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا ‘‘ (دیکھو مضمون صداقت حضرت مسیح موعودؑ از روئے بائبل)

۲۔شرح عقائدنسفی میں بھی (جو اہل سنت و الجماعت کی معتبر کتابوں میں سے ہے) لکھا ہے:۔

فَاِنَّ الْعَقْلَ یَجْزِمُ بِاِمْتِنَاعِ اِجْتِمَاعِ ھٰذِہِ الْاُمُوْرِفِیْ غَیْرِالْاَنْبِیَآءِ وَاَنْ یَّجْمَعَ اللّٰہُ تَعَالٰی ھٰذِہِ الْکَمَالَاتِ فِیْ حَقِّ مَنْ یَّعْلَمُ اَنَّہٗ یَفْتَرِیْ عَلَیْہِ ثُمَّ یُمْہِلُہٗ ثَلَاثًا وَّعِشْرِیْنَ سَنَۃً(شرح عقائد نسفی بالنبراس ازعلامہ عبدالعزیزپرہاروی مطبوعہ میرٹھ مبحث النبوات صفحہ۱۰۰)کہ عقل اس بات کو ناممکن قرار دیتی ہے کہ یہ باتیں ایک غیر نبی میں جمع ہو جائیں۔ اس شخص کے حق میں جس کے متعلق خداتعالیٰ جانتا ہے کہ وہ خدا پر افتراء کرتا ہے پھراس کو ۲۳ سال کی مہلت دے ۔

۳۔ پھر شرح عقائد نسفی کی شرح نبراس میں لکھا ہے:۔

فَاِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ بُعِثَ وَعُمْرُہٗ اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً وَتُوُفِّیْ وَ عُمْرُہٗ ثَلَاثَۃَ وَ سِتُّوْنَ سَنَۃً (شرح عقائد نسفی شرح نبراس ازعلامہ عبدالعزیزپرہاروی مطبوعہ میرٹھ صفحہ ۴۴۴)۲۳ سال کی میعاد ہم نے اس لیے بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمچالیس کی عمر میں نبی ہوئے اور ۶۳ سال کی عمر میں حضورؐ نے وفات پائی۔

۴۔ نبراس میں علامہ عبدالعزیز پرہاروی فرماتے ہیں:۔

’’ وَقَدْ اِدَّعٰی بَعْضُ الْکَذّٰبِیْنَ النُّبُوَّۃَ کَمُسَیْلَمَۃِ الْیَمَامِیْ وَالْاَسْوَدِ الْعَنْسِیْ وَ سَجَّاحِ الْکَاھِنَۃِ فَقُتِلَ بَعْضُھُمْ وَتَابَ بَعْضُھُمْ وَبِالْجُمْلَۃِ لَمْ یَنْتَظِمْ اَمْرُالْکَاذِبِ فِی النُّبُوَّۃِ اِلَّا اَیَّامًا مَعْدُوْدَاتٍ۔‘‘ (شرح عقائد نسفی شرح نبراس ازعلامہ عبدالعزیزپرہاروی نبراس صفحہ ۴۴۴ مطبوعہ میرٹھ)

کہ بعض جھوٹوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ جیسا کہ مسیلمہ یمامی، اسود عنسی وغیرہ نے۔ پس ان میں سے بعض قتل ہو گئے اور باقیوں نے توبہ کر لی اور نتیجہ یہ ہے کہ جھوٹے مدعی ٔ نبوت کا کام چند دن سے زیادہ نہیں چلتا۔

۵۔امام ابن قیم ایک عیسائی سے مناظرہ کے دوران میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں:۔

وَھُوَ مُسْتَمِرٌّ فِی الْاِفْتِرَاءِ عَلَیْہِ ثَلَاثَۃً وَ عِشْرِیْنَ سَنَۃً وَھُوَ مَعَ ذَالِکَ یُؤَیِّدُہٗ (زاد المعاد جلد۱ صفحہ ۵۰۰ زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹)کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مدعی خدا پر ۲۳ سال سے افتراء کرتا ہے اور پھر بھی خدااس کو ہلاک نہیں کرتا بلکہ ا س کی تائید کرتا ہے۔ وہ پھر کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔

۶۔ پھر فرماتے ہیں:۔ نَحْنُ لَا نُنْکِرُ اَنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْکٰذِبِیْنَ قَامَ فِی الْوُجُوْدِ وَ ظَھَرَتْ لَہٗ شَوْکَتُہٗ وَلٰکِنْ لَّمْ یَتِمْ لَہٗ اَمْرُہٗ وَلَمْ تَطُلْ مُدَّتُہٗ بَلْ سَلَّطَ عَلَیْہِ رُسُلَہٗ……فَمَحَقُوْا اَثَرَہٗ وَقَطَعُوْا دَابِرَہٗ وَاسْتَاْصَلُوْا شَافَتَہٗ ھٰذِہٖ سُنَّتَہٗ فِیْ عِبَادِہٖ مُنْذُ قَامَتِ الدُّنْیَا وَاِلٰی اَنْ یَّرِثَ الْاَرْضُ وَمَنْ عَلَیْھَا۔(زاد المعاد جلد ۱ صفحہ ۵۰۰زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹)

’’کہ ہم اس امر کا انکار نہیں کرتے کہ بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت کھڑے ہوئے اور ان کی شان و شوکت بھی ظاہر ہوئی مگر ان کا مقصد کبھی پورا نہ ہوا۔ اور نہ ان کو لمبا عرصہ مہلت ملی۔ بلکہ خدا نے اپنے فرشتے ان پر مسلط کر دیئے جنہوں نے ان کے آثار مٹا دیئے اور ان کی جڑیں اکھاڑ دیں اور بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا۔ یہی خداکی اپنے بندوں میں جب سے دنیا بنی اورجب تک دنیا موجود رہے گی سنت ہے۔

۷۔ مفسرین:۔ علامہ فخرالدین رازی اپنی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:۔

ہٰذَا ذِکْرُہٗ عَلٰی سَبِیْلِ التَّمْثِیْلِ بِمَا یَفْعَلُہٗ الْمُلُوْکُ بِمَنْ یَتَکَذَّبُ عَلَیْہِمْ فَاِنَّہُمْ لَا یُمْھِلُوْنَہٗ بَلْ یَضْرِبُوْنَ رُقْبَتَہٗ فِی الْحَالِ۔‘‘ ( جلد ۸ صفحہ ۲۹۱زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹)

کہ یہ جو فرمایا کہ اگر یہ جھوٹا الہام بناتا تو ہم اس کی رگ جان کاٹ دیتے یہ بطور مثال ذکر کیا ہے جس طرح بادشاہ اس شخص کو جو جھوٹ موٹ اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرے مہلت نہیں دیتے۔

۸۔ پھر فرماتے ہیں:۔ ھٰذَا ھُوَالْوَاجِبُ فِیْ حِکْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی لِئَلَّا یَشْتَبِہَ الصَّادِقُ بِالْکَاذِبِ۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۸ صفحہ ۲۹۱زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹)

کہ خدا کی حکمت کے لئے یہی ضروری ہے (کہ جھوٹے کو جلدی برباد کر دیا جائے )تاکہ صادق کے ساتھ کاذب بھی نہ مل جائے۔(مشتبہ نہ ہوجائے)

۹۔امام جعفر طبری تفسیر ابن جریر زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر۴۴تا ۴۹ میں لکھتے ہیں:۔

’’اِنَّہٗ کَانَ یُعَاجِلُہٗ بِالْعُقُوْبَۃِ وَلَا یُؤَخِّرُہٗ بِھَا۔‘‘

کہ خدا تعالیٰ جھوٹے مدعی ٔ نبوت و الہام کو فوراً سزا دیتا ہے اور قطعاً تاخیر نہیں کرتا۔

۱۰۔مولوی ثنا ء اﷲ :۔الف۔’’نظام عالم میں جہاں اور قوانین الٰہی ہیں وہاں یہ بھی ہیکہ کاذب مدعی ٔ نبوت کو سر سبزینہیں ہوتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔‘‘(مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ۱۷)

ب۔ واقعات گذشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سرسبزی نہیں دکھائی۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود غیر متناہی مذاہب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوتمخالف بھی نہیں بتلاسکتے۔……مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے…… دعویٰ نبوت کئے اور خدا پر کیسے کیسے جھوٹ باندھے، لیکن آخر کار خدا کے زبردست قانون کے نیچے آکر کچلے گئے ……تھوڑے دنوں میں بہت کچھ ترقی کر چکے تھے۔ مگر تابکے۔‘‘ ( مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ۱۷)

ج۔’’دعویٰ نبوت کاذبہ مثل زہر کے ہے۔ جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا۔‘‘ ( ایضاً حاشیہ صفحہ۱۷)

۱۱۔ تفسیر روح البیان جلد۴ صفحہ ۶۲ ۴ زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا۴۸ پر ہے:۔

’’فِی الْاٰیَۃِ تَنْبِیْہٌ اَنَّ النَّبِیَّ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَوْ قَالَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہٖ شَیْئًا اَوْ زَادَ اَوْ نَقَصَ حَرْفًا وَاحِدًا عَلٰی مَا اُوْحِیَ اِلَیْہِ لَعَاقَبَہُ اللّٰہُ وَھُوَ اَکْرَمُ النَّاسِ عَلَیْہِ فَمَا ظَنُّکَ بِغَیْرِہٖ‘‘

کہ اس آیت میں تنبیہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے پاس سے کوئی الہام بنا لیتے یا جو وحی خدا کی طرف سے ناز ل ہوئی اس میں ایک حرف بھی بڑھاتے یا کم کر دیتے تو خدا تعالیٰ آپ کو سزا دیتا۔حالانکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خدا کی نظر میں سب دنیا سے معززہیں۔ پھر اگر کوئی دوسرا ( اس طرح پر) افتراء کرے تو اس کا کیا حال ہو ؟

۱۲۔ یہی مضمون تفسیر کشاف زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۸و ابن کثیر جلد ۱۰ صفحہ ا۷ بر حاشیہ فتح البیان و فتح البیان جلد۱۰ صفحہ ۲۷ و جلالین مجتبائی صفحہ ۴۷۰ زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹و شہاب علیٰ البیضاوی جلد ۸ صفحہ ۲۴۱ زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹ و السراج المنیرمصنفہ علامہ الخطیب البغدادی جلد ۴ صفحہ۶۳۶ پر بھی ہے۔

نوٹ نمبر ۱:۔بعضغیر احمدی مولوی ہمارے استدلال سے تنگ آکر کہا کرتے ہیں ’’ لَوْ‘‘ حرف شرط جبکسی جملہ میں مستعمل ہو تو اس کی جزا فوراًاسی وقت محقق ہو جایا کرتی ہے پس ’’لَوْ تَقَوَّلَ‘‘والی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ نبی کوئی جھوٹا الہام بناتاتو فوراًاسی وقت قتل کر دیا جاتا۔ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قاعدہ ’’ لَوْ‘‘ کے متعلق بالکل من گھڑتہے۔ کسی کتاب میں مذکور نہیں۔ نیز قرآن مجید میں ہے۔ (الکہف: ۱۱۰) کہ اگر تما م سمندر خدا تعالیٰ کے کلمات کو لکھنے کے لئے سیاہی بن جائیں تو و ہ سمندر ختم ہو جائیں مگر خدا کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سمندر لکھنا شروع کرنے کے ساتھ ہی یکدم ختم ہو جاتے یا یہ کہ باری باری کر کے آہستہ آہستہ سب ختم ہو جاتے۔ جوں جوں خدا کے کلمات احاطہ ٔ تحریر میں لائے جاتے توں توں سیاہی بھی ختم ہو جاتی۔

نوٹ نمبر۲:۔بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے۔ ان کو ۲۳ برس کی مہلت بعد از دعویٰ نہ ملی تھی۔

جواب:۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہیدکئے گئے تھے اور یہی جماعت احمدیہ کا مذہب ہے، لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ بھی تو تحریر فرمایا ہے:۔

(۱)’’عادت اﷲ اِس طرح پر ہے کہ اوّل اپنے نبیوں اور مُرسلوں کو اس قدر مہلت دیتا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصہ میں اُنکا نام پھیل جاتا ہے اور اُن کے دعوےٰ سے لوگ مطلع ہو جاتے ہیں اور پھر آسمانی نشانوں اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ کے ساتھ لوگوں پر اتمام حُجت کر دیتا ہے‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۷۰)

پس یہ تو درست ہے کہ یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے، لیکنحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہاں تحریر فرمایا ہیکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام دعویٰ کے بعد ۲۳ برس گزرنے سے پہلے ہی شہید کئے گئے تھے؟ پس جبتک کوئی صریح حوالہ حضرت اقدس علیہ السلام کی کتاب سے پیش نہ کرو اس وقت تک ۲۳ سالہ معیار کے جواب میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا نام نہ لو۔

(۲) اگر ایسا کوئی حوالہ ہو بھی (جس کا ہونا یقینا ناممکن ہے۔ مگر بغرض بحث) تو بھی ہماری دلیل پر کوئی اثر نہیں۔کیونکہ ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ جھوٹا مدعی ٔ نبوت بعد از دعویٰ الہام و وحی ۲۳ برس کی مہلت نہیں پاسکتا۔ اور اگر کوئی مدعی ٔ نبوت بعد از دعویٰ الہام و وحی۲۳ برس تک زندہ رہے تو یقینا وہ سچا ہے لیکن اس کا عکس کلیّہ نہیں۔

اس اعتراض کا مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نیخوب جواب دیا ہے۔

’’ کاذب مدعی ٔ نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔‘‘

اس پر مولوی صاحب حاشیہ میں لکھتے ہیں:۔

’’اس سے یہ نہ کوئی سمجھے کہ جو نبی قتل ہوا وہ جھوٹا ہے بلکہ ان میں عموم و خصوص مطلق ہے۔ یعنی یہ ایسا مطلب ہے جیسا کوئی کہے کہ جو شخص زہر کھاتا ہے مر جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ ہر مرنے والے نے زہر ہی کھائی ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ جو کوئی زہر کھائے گا وہ ضرور مرے گا۔اور اگر اس کے سوا بھی کوئی مرے تو ہو سکتا ہے گو اس نے زہر نہ کھائی ہو۔ یہی تمثیل ہے کہ دعویٰ نبوتِ کاذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا اگر اس کے سوا بھی کوئی ہلاک ہو تو ممکن ہے۔ ہاں یہ نہ ہو گا کہ زہر کھانے والا بچ رہے۔‘‘

(مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ ۱۷ حا شیہ)

سچ ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

واہ رے جو ش جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ

جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار

ایک وہم اوراس کا ازالہ

بعض لوگ اس کے جواب میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت (یونس :۷۰،۷۱)سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتری کو دنیا میں فائدہ ملتا ہے یعنی اس کو لمبی مہلت ملتی ہے۔( تلخیص از محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۳۰۳،۳۰۴ طبع۱۹۵۰ء ایڈیشن دوم)

جواب:۔ سے مراد لمبی مہلت نہیں بلکہ تھوڑی مہلت ہے۔ چنانچہ خود تم نے اگلے ہی صفحے پر قرآن مجید کی ایک دوسری آیت اس مقصد کے لئے نقل کر کے خود ہی اس کا ترجمہ کرکے اسے واضح کر دیا ہے:۔

( النحل: ۱۱۷،۱۱۸)

تحقیق مفتری نجات نہیں پائیں گے۔انہیں نفع تھوڑا ہے اور عذاب درد ناک۔‘‘

غرضیکہ قرآن مجید نے مفتری کے لئے لمبی مہلت کہیں بھی تسلیم نہیں کی جو ۲۳ سال تک دراز ہو جائے ہاں تھوڑی مہلت خواہ وہ ایک سال ہو یا دو یا پانچ سال یعنی ہماری بیان کردہ انتہائی مہلت سے کم ہو تو اس سے ہمیں انکار نہیں۔ اگر مفتری کو اتنی لمبی مہلت ملے جتنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ملی تو آیت ’’لَوْ تَقَوَّلَ‘‘ کی دلیل باطل ہو جاتی ہے کیونکہ مخالف بآسانی کہہ سکے گا کہ فلاں مدعی ٔ نبوت بھی باوجود جھوٹا ہونے کے ’’تَقَوَّلَ‘‘ کرتا رہا اور ۲۳ سال تک خدا تعالیٰ نے اس کی قطع و تین نہ کی ۔تو حضو رؑکا ۲۳ سال تک زندہ رہنا کس طرح سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت اور ’’عدم تقول‘‘ پر دلیل ہو سکتا ہے؟

یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے یہ آیت خاص ہے یعنی اگر باوجود اتنی بڑی نعمت کے آپ جھوٹا الہام بناتے تو ہلاک کئے جاتے۔ یہ توقابل قبول نہیں۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا کا کوئی نبی بھی(خواہ اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہزاروں حصہ کم انعام الٰہی ہوا ہو ) اور خواہ وہ کتنے ہی کم درجہ کا ہو۔ وہ خدا تعالیٰ پر افتراء کر سکے۔ یعنی اپنے پاس سے الہام گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر سکے۔ چہ جائیکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق اس کا امکان تسلیم کیا جائے۔

پس جب یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا کا کوئی سچا نبی جھوٹا الہام بنا ئے تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ اگر فلاں سچا نبی جھوٹا الہام بنائے تو ہم اسے ہلاک کر دیں اور پھر اس کو اس امر کی دلیل کے طور پر پیشکر لیا کہ یہ سچا ہے۔

اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا ابتداء سے یہ قانون ہے کہ وہ جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے والوں یا اپنے پاس سے جھوٹا الہام و وحی گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کرنے والوں کو۲۳ سالسے کم عرصہ میں ہی تباہ و برباد کر دیا کرتا ہے اور اس مسئلہ پر تورات، انجیل اور قرآن مجید متفق ہیں۔

پس خدا تعالیٰ نے یہی دلیل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کی دی ہے کہ دیکھو جب ہمارا قانون جاری و ساری ہے اور تم کو بھی مسلّم ہے کہ جھوٹا نبی تباہ و برباد و ہلاک کیا جاتاہے تو پھر اگر یہ نبی جھوٹا ہوتا اور الہام جھوٹا بنا کر میری طرف منسوب کرتا تو یقینا ہلاک ہو جاتا۔

پس اس کا۲۳ سال کی مہلت پانا اور اس عرصہ میں اس کا ہلاک نہ کیا جانا صریح طور پر اس کی صداقت کو ثابت کرتاہے۔

باقی رہا سورۃ الانعام:۹۴ کی آیت الخ پیش کرکے یہ ثابتکرنا چاہتے ہیں کہ افتراء علی اﷲ کرنے والوں کو اس جہان میں سزانہیں ملے گی ۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمہاری عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ عربی میں لفظ ’’موت‘‘ میں ’’قتل‘‘ اور’’ توفی‘‘ دونوں شامل ہوتے ہیں اور موت کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ مفتری قتل نہیں ہو سکتا یا اس کا قتل ہونا یا ہلاک ہونا ضروری نہیں۔ باطلہے۔

ایک دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری تائید اور بھی واضح الفاظ میں فرما دی ہے۔ …… (بنی اسرائیل: ۷۴ تا ۷۶)یعنی کافر تجھے اس وحی سے جو ہم نے تجھ پر نازل کی برگشتہ کرنے کی کوشش میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ تو ہم پر افتراء کر کے کوئی اور وحی بنا لے۔ اور اگر تُو ایسا کرے تو وہ تجھ کو اپنا دوست بنا لیں۔ اگر ہم نے تجھ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا تو تُو ان کے داؤ میں آ جاتا، لیکن اس صورت میں ہم تجھے دنیا و آخرت میں دُگنا عذاب چکھاتے اور کوئی شخص بھی تجھے ہم سے نہ بچاسکتا ۔

(ترجمہ کا آخری حصہ تو مؤلف محمدیہ پاکٹ بُک کو بھی مسلم ہے دیکھو صفحہ ۳۰۲ ایڈیشن دوم طبع۱۹۵۰ء)

دیکھو اس آیت میں بھی صاف الفاظ میں بتا دیا کہ اگر نبی اپنے پا س سے کوئی وحی بناتا تو اسی دنیا میں عذابِ الٰہی میں مبتلاکیا جاتا علاوہ اگلے جہان کے عذا ب کے۔ یہ کہناکہ یہ آیت بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے۔ خوش فہمی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی دوسرا نبی کفار کے کہنے پر لگ کر اپنے پاس سے وحی بنا لیتا اور افتراء علی اﷲ کرتا تو خدا اسے کوئی عذاب نہ دیتا۔ لیکن نعوذ باﷲ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایسا کرتے تو ان پر عذاب نازل کرتا ؂

گر ہمیں مکتب است و ایں ملّاں کارِ طفلاں تمام خواہد شد!

ایک اعتراض اور اس کا جواب

بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ’’لَوْ تَقَوَّلَ‘‘ والی آیت تو مدعیان نبوت کے لئے ہے۔ مگر مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۱ ء میں کیا ہے ۔

الجواب:۔ یہ غلط ہے کہ یہ آیت صرف مدعیان نبوت کے لئے ہے۔ اگر چہ مدعیان نبوت بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ آیت کے الفاظ ہیں :۔ کہ اگر یہ قول (الہام، وحی) اپنے پاس سے بنا کر ہماری طرف منسوب کرے تو وہ ہلاک کیا جاتا ہے لَوْ تَنَبَّئَا کا لفظ نہیں۔ کہ اگر یہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے ۔

پس اس آیت میں ہرایسے مفتری علی اﷲ کا ذکر ہے جو اپنے پاس سے جان بوجھ کر جھو ٹا الہام و وحی بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا مفتری علی اﷲ مدعی ٔ نبوت بھی ہو۔

۲۔ اگر بغرض بحث یہ مان بھی لیا جائے کہ یہاں صرف ’’مدعی نبوت‘‘ ہی مراد ہے تو پھر بھی تمہارا اعتراض باطل ہے۔ کیونکہ حضرت اقدس ؑ کا الہام ’’ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی‘‘ براہین احمدیہ میں موجود ہے جس میں حضور علیہ السلام کو ’’رسول‘‘ کرکے پکارا گیا ہے اور حضورؑ نے اس الہام کو خدا کی طرف منسوب فرمایا ۔

اگر خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو رسول نہیں کہا تھا تو پھر آیت زیر بحث کے مطابق ان کی ’’قطع و تین‘‘ ہونی چاہیے تھی مگر حضرت مرزا صاحبؑ براہین کے بعد تقریباً ۳۰ سال تک زندہ رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ مذہب نہیں کہ حضرت مرزا صاحب براہین کی تالیف کے زمانہ میں نبی نہ تھے بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ حضور علیہ السلام براہین کے زمانہ میں بھی نبی تھے ہاں لفظ نبی کی تعریف میں جو غیر احمدی علماء کے نزدیک مسلم تھی جو یہ تھی کہ ’’نبی‘‘ کے لئے شریعت لانا ضروری ہے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ ہو۔ اس تعریف کی رو سے نہ حضرت مرزا صاحب ۱۹۰۱ ء سے پہلے نبی تھے اور نہ بعد میں۔کیونکہ آپ کوئی شریعت نہ لائے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع بھی تھے۔پس چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریعی نبی نہ تھے اس لئے اوائل میں حضورعلیہ السلام اس تعریف نبوت کی رو سے اپنی نبوت کی نفی کرتے رہے جس سے مراد صرف اس قدر تھی کہ میں صاحبِ شریعت براہ راست نبینہیں ہوں، لیکن بعد میں جب حضور علیہ السلام نے ’’نبی‘‘ کی تعریف سب مخالفین پر واضح فرماکر اس کو خوب شائع فرمایا کہ نبی کے لئے شریعت لانا ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا تابع نہ ہو بلکہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ مشتمل بر کثرت امور غیبیہ کا نام نبوت ہے۔ تو اس تعریف کی رو سے آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسو ل کہا۔ اب ظاہر ہے کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تعریف نبوت کے رو سے حضرت صاحب علیہ السلام کبھی بھی نبی نہ تھے اور نہ صرف حضرت صاحب ؑ بلکہ آپ سے پہلے ہزاروں انبیاء مثلاً حضرت ہارون ؑ، سلیمان ؑ ،یحییٰ ؑ، زکریاؑ ، اسحاقؑ، یعقوبؑ، یوسف ؑ وغیرہ علیہم السلام بھی نبی ثابت نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ بھی کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے، لیکن ۱۹۰۱ ء کے بعد کی تشریح کے رو سے ( جو ہم نے اوپر بیان کی ہے) ۱۹۰۱ء سے پہلے بھی حضورؑ نبی تھے۔

غرضیکہ حضرت صاحب ؑ کی نبوت یا اس کے دعویٰ کے زمانہ کے بارہ میں کوئی اختلاف یا شبہ نہیں بلکہ بحث صرف ’’تعریفنبوت‘‘ کے متعلق ہے۔ ورنہ حضرت صاحب کا دعویٰ ابتداء سے آخر تک یکساں چلا آتاہے۔ جس میں کوئی فرق نہیں۔ آپ کے الہامات میں لفظ نبی اور رسول براہین کے زمانہ سے لے کر وفات تک ایک جیسا آیا ہے۔حضرت اقدس علیہ السلام نے جس چیز کو ۱۹۰۱ ء کے بعد نبوت قرار دیا ہے اس کا اپنے وجود میں موجود ہونا حضورؑ نے براہین کے زمانہ سے تسلیم فرمایا ہے ۔

پس حضور علیہ السلام کو دعویٰ نبوت و الہام و وحی کے بعد تیس برس کے قریب مہلت ملی جو آپ کی صداقت کی بیّن دلیل ہے۔

حق بر زبان جاری

چنانچہ خود مصنف محمدیہ پاکٹ بک کو بھی (جس نے یہ اعتراض کیا ہے ) ایک دوسری جگہ اقرار کرنا پڑا ہے جیسا کہ لکھتا ہے :۔

’’مرزا صاحب بقو ل خود براہین احمدیہ کے زمانہ میں ’’نبی اﷲ‘‘ تھے۔‘‘

(تلخیص از محمدیہ پاکٹ بک مطبوعہ ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۵۸)

ع لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کا بد انجام

شرائط:۔ جھوٹے مدعیانِ نبوت کے لئے جو اس آیت کے ماتحت قابلِ سزا ہیں مندرجہ ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے:۔

۱۔ وہ مجنون نہ ہو۔ تَقَوَّلَ باب تَفَعُّلْ سے ہے جس میں بناوٹ پائی جاتی ہے

۲۔ وہ لفظی الہام کا قائل ہو۔ یعنی یہ نہ کہتا ہو کہ جو دل میں آئے وہ الہام ہے۔ کیونکہ آیت میں بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ کا لفظ موجود ہے۔

۳۔ وہ اپنے دعویٰ کا اعلان بھی لوگوں کے سامنے کرے۔ خودد خاموش نہ ہو۔ کیونکہ آیت میں ’’ تَقَوَّلَ‘‘ کا فاعل خود مدعی ہے کوئی دوسرا نہیں۔ یعنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مدعی خود تو نہ کوئی دعوی کرے۔ نہ الہام پیش کرے۔ بلکہ اس کی بجائے کوئی اور شخص اپنے آپ سے بنا کر دعاوی اس کی طرف منسوب کر دے۔

نیز ( الحاقۃ: ۴۸) کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ موجود ہونے چاہئیں جن کے متعلق یہ خیال ہو سکے کہ یہ ہر مشکل میں ا س مدعی کے ممد و معاون ہوں گے۔

۴۔ وہ مدعی ٔ الُوہیت نہ ہو۔ گویا خدا کو اپنے وجود سے الگ ہستی خیال کرنے والا ہو۔ آیت زیر بحث میں لفظ عَلَیْنَا اس مضمون کو بیان کرتا ہے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں خدائی کے دعویٰ کرنے والے کا علیحدہ طور پر ذکر موجود ہے۔ ( الانبیاء :۳۰)

کہ جو شخص کہے کہ میں خدا ہوں اﷲ کے سوا تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیتے ہیں۔ ایسے ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔پس ثابت ہواکہ مدعی ٔ الوہیت کے لئے ضروری نہیں کہ اسے اس دنیا میں سزا دی جائے بلکہ یہ کاذب مدعی ٔ نبوت ہی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے لازمی اور ضروری قرار دیا ہے کہ اسے اسی دنیا میں سزا دی جائے کیونکہ کوئی انسان خدا نہیں ہو سکتا۔ پس مدعی ٔالوہیت کا دعویٰ عقلمندوں کو دھوکے میں نہیں ڈال سکتا مگر نبی چونکہ انسان ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے جھوٹے مدعی نبوت سے لوگوں کو دھوکہ لگنے کا امکان ہے۔ اسی لئے خدا اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے۔

چنانچہ علامہ ابو محمد ظاہری نے بھی اپنی کتاب الفصل فی المال والا ھواء والنحل جلد ۱ صفحہ۱۰۹ میں لکھا ہے :۔

’’وَ مُدَّعِیُّ الرَّبُوْبِیَّۃِ فِیْ نَفْسِ قَوْلِہٖ بَیَانُ کَذِبِہٖ قَالُوْا فَظُھُوْرُالْاٰیَۃِ عَلَیْہِ لَیْسَ مُوْجِبًا بِضَلَالِ مَنْ لَہٗ عَقْلٌ۔ وَاَمَّا مُدَّعِیُّ النُّبُوَّۃِ فَلَا سَبِیْلَ اِلٰی ظُھُوْرِ الْاٰیَاتِ عَلَیْہِ لِاَنَّہٗ کَانَ یَکُوْنُ مُضِلًّا لِکُلِّ ذِیْ عَقْلٍ۔‘‘

کہ مدعی الوہیت کا دعویٰ ہی خود اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے لہٰذا اس سے کسی نشان کا ظہور کسی صاحب عقل کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ مگر کاذب مدعی ٔ نبوت سے نشان ظاہر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہ ہر صاحب عقل کو گمراہ کرنے کا باعث ہو گا۔

ب۔ یہی فرق نبرا س شرح الشرح العقائد نسفی صفحہ ۴۴۴ ’’بحث الخوارق‘‘ میں مذکور ہے نیز تفسیر کبیر امام رازی جلد ۸ صفحہ ۲۹۱۔ حوالہ مندرجہ پاکٹ بک ہذا صفحہ۳۲۶۔

۱۔ ابو منصور

جواب۱ : وہ مدعی ٔ نبوت نہ تھا ۔چنانچہ ’’منہاج السنّہ‘‘ میں بھی جس کا حوالہ غیر احمدی دیا کرتے ہیں، اس کا دعوی نبوت مذکور نہیں ۔

۲۔ علامہ ابو منصور البغدادی لکھتے ہیں:۔

وَ اِدَّعٰی ھٰذَا الْعَجْلِیُّ اَنَّہٗ خَلِیْفَۃَ الْبَاقِرِ……وَقَفَ یُوْسُفُ بْنُ عُمَرَالثَّقْفِیُ وَاَتَی الْعِرَاقَ……فَاَخَذَ اَبَا مَنْصُوْرَ الْعَجَلِیْ وَصَلَبَہٗ۔

(الفرق بین الفرق الفصل الخامس صفحہ ۱۴۹ میرمحمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)

کہ ابو منصور عجلی نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ باقرؓ کا خلیفہ ہے۔ پس جب یوسف ابن عمر الثقفی کو اس بات کا علم ہوا تو وہ عراق آیا اور ابو منصور کو پکڑ کر صلیب دے دی۔

۳۔ اس کا ۲۷ سال بعد دعویٰ زندہ رہنا شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں (جس کا غیر احمدی حوالہ دیا کرتے ہیں ) قطعاً نہیں لکھا۔

۴۔ غیر احمدی اس کا سن قتل ۳۶۸ھ بتایا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا اس کا قاتل یوسف بن عمر الثقفی ہے اور وہ خود ۱۲۷ھ میں مرا جیساکہ علامہ ابن خلکان کی کتاب ’’وفیات الاعیان ‘‘جلد ۲ ذکر یوسف بن عمر الثقفی مطبوعہ دار صادر بیروت پر لکھا ہے:۔

وَذَالِکَ فِیْ سَنَۃَ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ وَمِائَۃٌ کہ یوسف بن عمر الثقفی کی موت ۱۲۷ھ میں ہوئی جبکہ وہ ۶۵ سال کی عمر کا تھا۔

اب قاتل تو ۱۲۷ھ میں مر گیا اور مقتول بقول غیر احمدیان ۳۶۸ ھ میں مرا ۔ العجب۔

۲۔محمد بن تومرت

جواب: ۱۔ اس کا دعویٰ نبوت کہیں بھی مذکور نہیں۔

۲۔ ہاں اس نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت ضرور کی اور ۱۴ ھ میں شاہ مراکش نے اسے دارالسلطنت سے نکال دیا۔ اور وہ حیل سوس میں جا کر بغاوت کرتا رہا۔

۳۔اس نے خود دعویٰ مہدویت بھی نہیں کیا۔ فَقَامَ لَہٗ عَشْرَۃُ رِجَالٍ اَحَدُھُمْ عَبْدُالْمُؤْمِنِ فَقَالُوْا لَایُوْجَدُ اِلَّا فِیْکَ فَاَنْتَ الْمَھْدِیُّ(کامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد۱۰ صفحہ۵۷۱ مطبوعہ دار بیروت للطباعۃ والنشر۱۹۶۶ء) کہ اس کے دس ساتھی ہو گئے جن میں سے ایک عبدالمومن تھا۔ انہوں نے اسے کہا کہ تیرے سوا مہدی کی صفات اور کسی میں پائی نہیں جاتیں لہٰذا تو ہی مہدی ہے۔

۴۔اگر اس کا دعویٰ مہدویت ثابت بھی ہو جائے تب بھی وہ لَوْ تَقَوَّلَ والی آیت کے نیچے نہیں آسکتا جب تک کہ جھوٹے الہام یا وحی کا مدعی نہ ہو۔

۳۔عبدالمومن

جواب:۔ یہ محمد بن تومرت کا خلیفہ تھا۔ یہ بھی اس کے ماتحت آ جاتا ہے۔

۴۔صالح بن طریف

جواب:۔۱۔ اس نے اپنا کوئی الہام پیش نہیں کیا۔ لہٰذا تقوّل نہ ہوا۔

۲۔ اس نے خیال کیا تھا کہ وہ خود مہدی ہے۔ ثُمَّ زَعَمَ اَنَّہٗ الْمَہْدِیُّ الَّذِیْ یَخْرُجُ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون جلد ۶ صفحہ ۲۰۷) یعنی اس نے خیال کیا کہ وہ مہدی جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ میں ہوں۔ مگرا س نے کبھی کوئی الہام پیش نہیں کیا۔

۳۔اس نے اپنے دعویٰ مہدویت کا بھی اعلان کبھی نہیں کیا۔ وَاَوْصٰی بِدِیْنِہٖ اِلٰی اِبْنِہٖ اِلْیَاسَ وَعَہِدَ اِلَیْہِ بِمَوَالَاۃِ صَاحِبِ الْاُنْدُلُسِ مِنْ بَنِیْ اُمَیَّۃِ وَ بِاِظْھَارِ دِیْنِہٖ اِذَا قَوٰی اَمْرُھُمْ وَقَامَ بِاَمْرِہٖ بَعْدَہٗ اِبْنُہٗ اِلْیَاسُ وَلَمْ یَزَلْ مُظْھِرًا لِلْاِسْلَامِ مُسِرًّا لِمَا اَوْصَاہُ بِہٖ اَبُوْہُ(ابن خلدون جلد ۶ صفحہ ۲۰۷)کہ اس نے اپنے بیٹے الیاس کو وصیت کی کہ وہ اس کے مذہب پر قائم رہے اور اس سے عہد لیا کہ وہ حاکم اندلس کے ساتھ دوستی رکھے گا اور اپنے مذہب کا اظہار صرف اس وقت کرے گا جب وہ طاقتور ہو جائے۔ پس وہ اپنے باپ کے حکم پر قائم رہا اور یہی ظاہر کرتا رہا کہ وہ مسلمان ہے اور اپنا مذہب چھپاتا رہا جیسا کہ اس کے باپ نے اسے وصیت کی تھی۔

۵۔ عبیداﷲ بن مہدی

جواب :۔۱۔ اس نے نبوت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔

۲۔ اس نے اپنا کوئی الہام پیش نہیں کیا۔

۳۔ ابن خلکان نے وفیات الاعیانجلد نمبر۷ ذکر المہدی عبیداللّٰہ پر ایک روایت درج کی ہے کہ عبیداﷲ ابو محمد الملقب بالمہدی کو دوسرے یا تیسرے سال الیسع نے جو سجلماستہ کا حاکم تھا قید خانہ میں قتل کر دیا تھا اور پھر ایک شیعہ نے بعد میں جھوٹ موٹ ایک دوسرے آدمی کو عبیداﷲ قرار دے دیا۔

۶۔بیان بن سمعان

جواب :۔یہ نہ مدعی وحی، نہ مدعی ٔ نبوت، نہ مدعی الہام۔ ہاں اس کے بعض واہیا ت عقائد تھے مگر وہ تَقَوَّلَ کی آیت کے ماتحت کسی طرح نہیں آسکتا ۔ سوال توصرف تقوّل علی اللّٰہ کا ہے نہ کہ غلط عقائد رکھنے کا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنۃ میں لکھتے ہیں:۔

بَیَانُ بْنُ سَمْعَانِ التَّیْمِیُّ الَّذِیْ تُنْسَبُ اِلَیْہِ الْبَیَانِیَۃُ مِنْ غَالِیَۃِ الشِّیْعَۃِ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْاِنْسَانِ وَاِنَّہٗ یَھْلِکُ کُلَّہٗ اِلَّا وَجْھَہٗ وَادَّعٰی بَیَانُ اَنَّہٗ یَدْعُوا الزُّھْرَۃَ فَتُجِیْبُہُ وَاَنَّہٗ یَفْعَلُ ذَالِکَ بِالْاِسْمِ الْاَعْظَمِ فَقَتَلَہٗ خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ الْقَسْرِیُّ۔

(منہاج السنۃ جلد ۱ صفحہ ۲۳۸)

کہ بیان بن سمعان تیمی وہ تھا جس کی طرف غالی شیعوں کافر قہ بیانیہ منسوب ہوتا ہے اور وہ کہا کرتا تھا کہ خداتعالیٰ انسان کی شکل کا ہے سارا خدا بھی آخرکار ہلاک ہو گا۔مگر اس کا چہرہ بچ رہے گا اور یہ کہ وہ زہرہ (ستارے) کو بلاتا ہے اور وہ اس کو جواب دیتی ہے اور یہ بات وہ صرف اسم اعظم کی برکت سے کرتا ہے ۔ پس خالد بن عبد اﷲ قسری نے اسے قتل کیا۔

۷۔مُقَنَّْع ْ

جواب:۔ وہ ۱۵۹ھ میں ظاہر ہوا۔ اور ۱۶۲ھ میں یعنی ۴ سال بعد اس نے زہر کھا کر خود کشی کرلی اور اس کا سر قلم کیا گیا۔ (تاریخ کامل ابن اثیر جلد۶ صفحہ ۹۱)

۸۔ابوالخطاب الاسدی

جواب :۔ وہ مدعی ٔالہام یا نبوت نہیں بلکہ مدعی ٔ الوہیت تھا ۔

۲۔ وہ قتل ہو ا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنۃ جلد ۱ صفحہ۲۳۹ پر فرماتے ہیں :۔

’’وَعَبَدُوْا اَبَا الْخَطَّابِ وَ زَعَمُوْا اَنَّہٗ اِلٰہٌ وَخَرَجَ اَبُوالْخَطَّابَ عَلٰی اَبِیْ جَعْفَرَ الْمَنْصُوْرِ فَقَتَلَہٗ عِیْسَی ابْنُ مُوْسٰی فِیْ سِجْنَۃِ الْکُوْفَۃِ ۔‘‘کہ لو گ ابو الخطاب کو خدا کر کے پوجنے لگے اور یہ خیال کیا کہ وہ خدا ہے ۔ پھر ابوالخطاب نے ابو جعفر منصور پر حملہ کیا۔پس عیسیٰ بن موسیٰ نے کو فہ میں اسے قتل کر دیا ۔ نیز دیکھو (کتاب الفصل فی الملل و النحل از امام ابن حزم جلد ۲ صفحہ ۱۱۴)

۹۔احمد بن کیال

جواب:۔۱۔ اس نے نہ دعویٰ نبوت کی نہ دعویٰ وحی و الہام ۔

۲۔ وہ سخت ناکام و نا مراد ہوا ۔’’لَمَّا وَقَفُوْا عَلٰی بِدْعَتِہٖ تَبَرَّءُ وْا مِنْہُ وَلَعَنُوْہُ ۔‘‘ (الملل والنحل جلد ۲ صفحہ ۱۷ بر حاشیہ الملل والنحل از امام ابن حزم)کہ اس کے متبعین کو جب اس کی بدعت کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے براء ت کا اظہار کیا اور اس پر *** بھیجی ۔

۱۰۔مغیرہ بن سعد عجلی

جواب ۔ اس کے متعلق کہیں بھی نہیں لکھا کہ اس نے وحی یا الہام یا نبوت کا دعویٰ کیا ہو ۔ پس اس کوپیش کرنا جہالت ہے ۔

لَوْ تَقَوَّلَ والی آیت کے تحت وہی آئے گا جو مدعی ٔوحی و الہام ہوا اور اپنا الہام یا وحی کو لفظاً پیش کرے ۔
 
Top Bottom