اعتراض 9۔ نبی کے لئے تو صاحب شریعت ہونا ضروری ہے۔ مگر مرزا صاحب صاحبِ شریعت نہ تھے۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 9۔ نبی کے لئے تو صاحب شریعت ہونا ضروری ہے۔ مگر مرزا صاحب صاحبِ شریعت نہ تھے۔

جواب۔ صاحبِ شریعت ہونا ضروری نہیں۔

نمبر ۱:۔ قرآن مجید میں ہے:۔

’’‘‘ (المائدۃ: ۴۵) کہ ہم نے تورات نازل کی اس میں ہدایت اور نور تھا اور انبیاء (بنی اسرائیل )جو تورات کو مانتے تھے وہ سب فیصلہ تورات سے ہی کیا کرتے تھے۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام رازیؒ تحریر فرماتے ہیں:۔

یُرِیْدُ النَّبِیِّیْنَ الَّذِیْنَ کَانُوْا بَعْدَ مُوْسٰی وَذٰلِکَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی بَعَثَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اُلُوْفًا مِنَ الْاَنْبِیَاءِ لَیْسَ مَعَھُمْ کِتَابٌ اِنَّمَا بَعَثَھُمْ بِاِقَامَۃِ التَّوْرَاۃِ۔ ‘‘(تفسیر کبیرزیر آیت ٌ۔ المائدۃ:۴۵) یعنی اس آیت میں نبیوں سے مراد وہ نبی ہیں جو موسیٰ ؑکے بعد مبعوث ہوئے۔ اس لئے کے اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ہزاروں نبی ایسے مبعوث فرمائے جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی بلکہ وہ محض تورات ہی کو قائم کرنے کی غرض سے مبعوث کئے گئے تھے۔

۲۔ دوسرے مقامات پر امام رازیؒ نے بالوضاحت تحریر فرمایا ہے :۔

فَجَمِیْعُ الْاَنْبِیَآءِ مَااُوْتُو الْکِتَابَ وَ اِنَّمَا اُوْتِیَ بَعْضُھُمْ۔ (تفسیر کبیر زیر آیت ۔آل عمران: ۸۲)کہ تمام انبیاء کو کتاب نہیں ملی تھی بلکہ ان میں سے صرف بعض انبیاء کو کتاب ملی تھی۔

۳۔ امام رازی ؒ حضرت اسحق ، ایوب ، یعقوب، یونس ،ہارون ، داؤد اور سلیمان علیہم السلام کے نام لکھ کر تحریر فرماتے ہیں:۔’’لِاَنَّھُمْ مَا جَاءُ وْا بِکِتَابٍ نَاسِخٍ ‘‘

(تفسیر کبیر زیر آیت۔الحج: ۵۳)

علامہ ابو السعود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’وَالنَّبِیُّ……مَنْ بَعْثُہٗ لِتَقْرِیْرِ شَرِیْعَۃٍ سَابِقَۃٍ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ الَّذِیْنَ کَانُوْابَیْنَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ۔ ‘‘

(تفسیر ابی السعود بر حاشیہ تفسیر کبیر زیرآیت الحج:۵۳)

یعنی نبی وہ ہوتا ہے جس کی بعثت کی غرض محض سابق شریعت کو قائم کرنا ہوتی ہے جس طرح کہ وہ تمام انبیاء تھے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان مبعوث ہوئے۔

۵۔’’اَنَّ الرَّسُوْلَ لَا یَجِبُ اَنْ یَّکُوْنَ صَاحِبَ شَرِیْعَۃٍ جَدِیْدَۃٍ(مُسْتَقِلَّۃٍ) فَاِنَّ اَوْلَادَ اِبْرَاہِیْمَ کَانُوْا عَلٰی شَرِیْعَتِہٖ۔ ‘‘(روح المعانی جلد ۵ صفحہ۱۸۶)

یعنی رسول کے لئے ضروری نہیں کہ وہ نئی شریعت لانے والا ہو۔ کیونکہ ابراہیم کی اولاد میں جو نبی آئے وہ سب ابراہیم ؑ کی شریعت پر تھے۔

نبی کے لئے تو صاحب شریعت ہونا ضروری ہے۔ مگر مرزا صاحب صاحبِ شریعت نہ تھے۔ (حصہ دوم )


۸۔عقلی دلیل:۔

یہ دعویٰ کہ ہر نبی کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری ہے اور یہ کہ جب تک پہلے نبی کے احکام کو منسوخ کر کے نیا حکم نہ لائے کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ اس قدر خلاف عقل ہے کہ کوئی شخص جسے تاریخ انبیاء کا علم ہو اپنی زبان سے یہ دعویٰ نکال نہیں سکتا۔ کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی قوم اور شہر بلکہ ایک ہی مکان میں بعض دفعہ دو دو تین تین بلکہ چار چار اور اس سے زیادہ بھی نبی ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ و ہارون۔ ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق۔یعقوب و یوسف۔ داؤدو سلیمان ، حضرت زکریا و یحییٰ اورعیسیٰ علیہم السلام۔

پس اگر ہر نبی کے لئے جدید شریعت کا لانا ضروری ہو تو پھر یہ مضحکہ خیز صورت تسلیم کرنی پڑے گی کہ ایک ہی شہر میں ایک نبی نماز ظہر کے وقت یہ اعلان کرتا ہے کہ پانچ نمازیں فرض ہیں تو عصر کے وقت دوسرانبی یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے۔ اب چار نمازیں فرض ہو گئی ہیں۔ اس طرح تو مذہب مذہب نہیں رہے گا بلکہ تماشا بن کے رہ جائے گا۔

۹۔ (الانعام: ۹۰)کی تفسیر میں علامہ شہاب الدین فرماتے ہیں:۔

اَلْمُرَادُ بِاِیْتَائِہِ التَّفْھِیْمُ التَّامُ بِمَا فِیْہِ مِنَ الْحَقَائِقِ وَالتَّمْکِیْنِ مِنَ الْاِحَاطَۃِ بِالْجَلَائِلِ وَالدَّقَائِقِ اَعَمُّ مِنْ اَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ بِالْاِنْزَالِ اِبْتِدَاءً……فَاِنَّ الْمَذْکُوْرِیْنَ عَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمْ کِتَابٌ مُعَیَّنٌ۔

(تفسیر ابی السعود بر حاشیہ تفسیر کبیر زیرآیت الانعام:۹۰۔ روح المعانی زیرآیت الانعام:۹۰)

کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو پوری پوری تفہیم عطا کرے گا ان حقائق اور دقائق کی جو اس کتاب میں ہیں عام اس سے کہ ان کو کوئی خاص کتاب دی جائے کیونکہ وہ انبیاء جن کا قرآن میں ذکر ہے ان میں سے کئی ایسے ہیں جن پر کوئی کتاب معین نازل نہیں ہوئی۔

(نیزدیکھو تذکرۃ الاولیا ء ذکرحضرت حبیب عجمی انوار الازکیا صفحہ ۶۵ چھٹا باب )

۱۰۔ آیت کے نیچے لکھا ہے ’’لَا مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمْ عَلَی الْاِطْلَاقِ اِذْلَمْ یَکُنْ لِبَعْضِھِمْ کِتَابٌ وَ اِنَّمَا کَانُوْا یَأْخُذُوْنَ بِکُتُبِ مَنْ قَبْلَھُمْ۔ ‘‘

(روح البیان زیرآیت البقرۃ:۲۱۳ تفسیر ابی السعود و بر حاشیہ تفسیر کبیر زیرآیت البقرۃ:۲۱۳)

یعنی اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر ایک نبی کو الگ الگ کتاب دی گئی تھی کیونکہ ایسے انبیاء بھی ہوئے ہیں جن کے پاس اپنی کتاب کوئی نہ تھی پہلے نبی کی کتاب سے ہی وہ استنباط کیا کرتے تھے۔ (اٰل عمران :۸۲)

۱۱۔اَرَادَ بِالنَّبِیِّیْنَ الَّذِیْنَ بُعِثُوْا بَعْدَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَذٰلِکَ اَنَّ اللّٰہَ بَعَثَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اُلُوْفًا مِنَ الْاَنْبِیَآءِ وَ لَیْسَ مَعَھُمْ کِتَابٌ اِنَّمَا بُعِثُوْا بِاِقَامَۃِ التَّوْرَاۃِ وَ اَحْکَامِھَا۔

(تفسیر خازن زیر آیت( المائدۃ:۴۵)

کہ آیت’’‘‘میں نبیوں سے مرا د وہ نبی ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور یہ اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ہزاروں نبی ایسے بھیجے کہ جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی۔ بلکہ وہ محض توراۃ اور اس کے حکموں کو قائم کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔

۱۲۔ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی لکھتے ہیں:۔

’’پھر ان کے بعد اور رسو لوں کو( جو کہ صاحب شریعت مستقلہ نہ تھے) یکے بعد دیگرے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا۔‘‘

(حمائل مترجم اشرف علی تھانوی مطبوعہ دہلی زیر آیت (الحدید:۲۸)

۱۳۔کے نیچے لکھا ہے :۔

’’اوپر ذکر تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء بھیجے جو ہمیشہ احکام تورات کی حکم برداری میں خودبھی لگے رہتے اور بنی اسرائیل کے عابدوں اورعالموں کو بھی ان کی تاکید کرتے۔ ان آیتوں میں فرمایا کہ ان انبیاء بنی اسرائیل کے قدم بقدم سب انبیاء بنی اسرائیل تھے اور آخر پر اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ بن مریم کو تورات کے احکام کی تصدیق و نگرانی کے لئے بھیجا۔‘‘

(حمائل مترجم اشرف علی سورۃ المائدۃ آیت: ۴۵)
 
Top Bottom