اعتراض 39۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ میرے بچے مبارک احمد نے اپنی والدہ کے شکم میں باتیں کیں۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 39۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ میرے بچے مبارک احمد نے اپنی والدہ کے شکم میں باتیں کیں۔

جواب:۔مبارک احمد کے جس کلام کا ذکر تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵صفحہ۲۱۳،۲۱۴ پر ہے وہ براہ راست بچے کا کلام نہیں۔بلکہ الہام الٰہی ہے جو خدا تعالی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا۔یعنی اﷲ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا کہ ’’اِنِّی اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ ‘‘ (تذکرہ صفحہ ۲۷۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)(یعنی میں اﷲ تعالی کی طرف سے آیا ہوں اور جلد ہی خدا تعالیٰ کی طرف واپس چلا جاؤں گا) یہ الفاظ اﷲ تعالیٰ نے حضور کو مبارک احمد کی ولادت سے پہلے الہام کئے اور یہ کلام حکایتاً مبارک احمد کی طرف سے تھا۔جیسا کہ قرآن کریم کی آیت ’’‘‘کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی طرف سے یہ الفاظ الہام کئے ہیں۔پس اسی طرح چونکہ الہامی فقرہ میں اﷲ تعالیٰ نے یہ کلام مبارک احمد کی طرف سے کیا تھا اور جملہ کا متکلم بالواسطہ مبارک احمد تھا۔اس لئے حضرت اقدس نے استعارۃً لکھا ہے کہ گویا اس کے بچے ہی نے باتیں کیں۔یہ قول صاحبزادہ مبارک احمد کا ایسا ہی ہے جیسے قرآن مجید سورۃ آل عمرآن رکوع ۵ میں ہے کہ جب فرشتہ حضرت مریم ؑ کے پاس حضرت مسیحؑکی ولادت کی بشارت لے کر آیا تو اس کی بشارت کے ساتھ ہی’’‘‘ (اٰل عمران :۵۰) شروع ہو جاتا ہے(کہ میں آیا ہوں تمہاری طرف، خدا کی طرف سے نشان لے کر) مختصر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کی رو سے وہ آواز مبارک احمد کی طرف سے نہ آئی تھی بلکہ الہامی کلام میں اﷲ تعالی نے حکایتاً اس کی طرف سے کلام کیا تھا۔

۲۔لیکن تمہارے ہاں تو یہاں تک لکھا ہے کو ایک دفعہ حضرت ’’پیران پیر‘‘سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کی والدہ نے آپ سے کچھ بات کہی تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا۔اے اماں!کیا تجھے یاد نہیں کہ جب میں تیر ے پیٹ میں تھاتو ان دنوں ایک سائل فقیر بھیک مانگنے تیرے دروازہ پر آیا۔تو اسے ایک شیر کھانے کے لئے دوڑا تھا۔جس سے ڈر کر وہ سائل بھاگ گیا تھا۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ وہ شیر میں ہی تھا ؟ (گلدستہ کرامات صفحہ ۲۱۵از سید عبدالقادر جیلانی ؒ)

۳۔ لواور سنو !بحار الانوار جلد ۱۰ میں علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ مصباح الانوارسے اور امالی شیخ صادق سے روایت کرتے ہیں جس کے ترجمہ پر اکتفا کی جاتی ہے۔

’’مفضل ابن عمر بیان کرتے ہیں میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب سیّدہ ( حضرت فاطمہؓ۔خادمؔ)کی ولادت کس طرح ہوئی۔آپ نے فرمایا کی جب خدیجہ ؓسے جناب رسول اﷲ نے شادی کی تو مکہ کی عورتوں نے انھیں چھوڑ دیا۔نہ وہ ان کے پاس آتی تھیں نہ ان کو سلام کرتی تھیں اور نہ کسی اور عورت کو ان کے پاس آنے دیتی تھیں۔اس بات سے جناب خدیجہ ؓ کو بہت دہشت ہوئی۔اور ادھر جناب رسول اﷲؐ کی طرف سے بھی خوف دامن گیر تھا۔اس حالت میں جناب سیّدہ کا حمل قرار پایا۔جناب سیّدہ۔ خدیجہ ؓ سے باتیں کیا کرتی تھیں اور انھیں تسلی و دلاسا دیتی رہتی تھیں۔ اور صبر کی تلقین فرماتی تھیں۔خدیجہ ؓ نے رسول اﷲؐ سے یہ بات چھپا رکھی تھی۔ ایک روز رسول اﷲؐ تشریف لائے تو آپؐ نے سنا کہ خدیجہؓ جناب فاطمہ ؓ سے باتیں کر رہیں ہیں پوچھا! یہ کس سے باتیں کرتی ہیں خدیجہ ؓ نے عرض کیا کہ یہ بچہ جو میرے شکم میں ہے مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میری وحشت کو دور کرتا ہے آپ ؐ نے فرمایا ’’اے خدیجہؓ۔ جبر ئیل ؑ نے مجھے بشارت دی ہے کہ یہ بچہ لڑکی ہے۔‘‘

(سیرۃ الفاطمہ اعنی سوانح عمری حضرت سیّدہ صلوٰۃ اﷲ علیہاتصنیف سیّد حکیم ذاکر حسین صاحب مترجم نہج البلاغہ مطبوعہ۱۹۲۱ء صفحہ۲۹،صفحہ۳۰)
 
Top Bottom