اعتراض 38۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے غیر احمدیوں کو جنگلوں کے سور کہا ۔ ان الـعـدا صـاروا خنازیر الـفـلا ونـسـاء ہـم مـن دونہن الاکلب

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 38۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے غیر احمدیوں کو جنگلوں کے سور کہا اور ان کی عورتوں کو کتیوں سے بڑھ کر کہا۔ ان الـعـدا صـاروا خنازیر الـفـلا ونـسـاء ہـم مـن دونہن الاکلب
(نجم الہدی۔روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۵۳)


جواب:یہ عام خطاب نہیں بلکہ صرف ان دشمنوں کو ہے جو گندی گالیاں دیتے تھے۔خواہ وہ مرد ہوں۔خواہ عورتیں۔۔چنانچہ اس کا اگلا شعر ہے ؂

سَـبُّـوْا وَمَـا أَدْرِیْ لِاَیِّ جــَرِیمَـۃٍ

(نجم الہدی۔روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۵۴)

کہ وہ مجھ کو گالیاں دیتے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں اور کس جرم کے بدلے گالیاں دیتے ہیں۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

ا۔’’ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہریک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گُم گشتہ کے کانوں تک پہنچا دیوے پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کرے۔‘‘

(ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۱۲)

ب۔ مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی۔ لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی۔ اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے کتاب البریّۃ رکھا ہے اور با ایں ہمہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے۔

اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا۔ اوّل یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پاکر اپنی روش بدلالیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں۔ دوم یہ کہ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں اور سخت الفاظ کا جواب بھی کسی قدر سخت پاکر اپنی پُرجوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھالیں کہ اگر اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قدر سختی کے ساتھ ان کو جواب مل گیا اور اس طرح وہ وحشیانہ انتقاموں سے دستکش رہیں……یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر سخت الفاظ کے مقابل پر دوسری قوم کی طرف سے کچھ سخت الفاظ استعمال نہ ہوں تو ممکن ہے کہ اس قوم کے جاہلوں کا غیظ و غضب کوئی اور راہ اختیار کرے۔ مظلوموں کے بخارات نکلنے کے لئے یہ ایک حکمت عملی ہے کہ وہ بھی مباحثات میں سختؔ حملوں کا سخت جواب دیں۔

(کتاب البریہ۔روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱۱،۱۲)

(نیز دیکھو ازالہ اوہام صفحہ۳۴،صفحہ۳۵ طبع اوّل،تقطیع کلاں صفحہ۱۷ طبع اوّل حصہ اوّل، کتاب البریہ صفحہ۹۳ طبع اوّل صفحہ۱۱۱تا ۱۱۸، تبلیغ رسالت جلدنمبر ۷ صفحہ ۹۷ و تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ۲۰تا ۲۳ طبع اوّل)
 
Top Bottom