اعتراض 24 ۔ مرزا صاحبؑ نے امر تسر میں رمضان کے ایام میں تقریر کرتے ہوئے چائے پی لی اور رمضا ن کا احترام نہ کیا۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 24 ۔ مرزا صاحبؑ نے امر تسر میں رمضان کے ایام میں تقریر کرتے ہوئے چائے پی لی اور رمضا ن کا احترام نہ کیا۔

جواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ا مر تسر میں مسافر تھے۔ اس لیے بموجب شریعت آپ پر روزہ رکھنا فرض نہ تھا۔ ملاحظہ ہو :۔

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

’’‘‘(البقرۃ:۱۸۵)کہ بیمار اور مسافر بجائے رمضان میں روزہ رکھنے کے بعد میں روزہ رکھ کر گنتی پوری کر ے۔

حدیث :۔ حدیث شریف میں ہے:۔

الف۔’’اِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَ شَطْرَ الصَّلٰوۃِ۔ ‘‘

(مسند امام احمد بن حنبلؒ حدیث أنس بن مالک نمبر۱۸۵۶۸۔ ابو داؤد کتاب الصیام باب من اختار الفطر مطبع نول کشور صفحہ ۲۶۹)

یعنی اﷲ تعالیٰ نے مسافر پر سے روزے اور نصف نماز کا حکم اٹھا دیا ہے۔

ب۔’’صَائِمُ رَمَضَانَ فِی السَّفْرِ کَالْمُفْطَرِ فِی الْحَضَرِ۔ ‘‘

( ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی الافطار فی السفر۔ جامع الصغیر للسیوطی باب الصاد جلد۲ مطبوعہ مصر)

ترجمہ:۔ رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے والامسافر ویسا ہی ہے۔ جیسا حضر میں روزہ نہ رکھنے والا۔

نوٹ:۔حضرت امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ حدیث نقل کر کے لکھاہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

ج۔’’عَلَیْکُمْ بِرُخْصَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْ رَخَّصَ لَکُمْ۔ ‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب جواز الصوم والفطر فی شہر رمضان)

یعنی تم پر خداکی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔

د۔’’لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ۔ ‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب جوازالصوم والفطر فی شھر رمضان للمسافر فی غیرمعصیۃ……الخ و بخاری کتاب الصیام باب قول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم لمن ظلل علیہ الخو تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ مولوی فیروزالدین اینڈ سنز ۱۳۴۱ھ جلد۱ صفحہ۳۷۳ و صفحہ۶۰۰)

یعنی سفر کی حالت میں روزہ رکھنانیکی نہیں ہے۔

ھ۔’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ اِلٰی مَکَّۃَ فَصَامَ حَتّٰی بَلَغَ عُسْفَانَ ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَرَفَعَہٗ اِلٰی یَدِہٖ لِیَرَاہُ النَّاسُ فَاَفْطَرَ حَتّٰی قَدِمَ مَکَّۃَ وَ ذَالِکَ فِیْ رَمَضَانَ۔ ‘‘

(بخاری کتاب الصوم باب مَنْ اَفْطَرَ فِی السَّفْرِ لِیَرَاہُ النَّاسُ ومسلم کتاب الصیام باب جوازالصوم والفطر……)

یعنی آنحضرت صلعم مدینہ سے روزہ رکھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مقام عسفان پر پہنچ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پانی منگوایا۔ اور پھر پانی کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اس غرض سے اونچااٹھایا کہ سب لوگ آ پؐ کو پانی پیتے ہوئے دیکھ لیں۔ پھر آپؐنے روزہ توڑ دیا اور یہ واقعہ رمضان کے مہینہ میں ہوا۔

نوٹ:۔ یہ واقعہ حدیبیہ کے سفر کا ہے۔ اس حدیث پر علماء نے بہت طول و طویل بحثیں کی ہیں۔ بعض علماء کاخیال یہ ہے۔ ’’اَنَّہٗ خَرَجَ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ فَلَمَّا بَلَغَ کُرَاعَ الْغَمِیْمِ فِیْ یَوْمِہٖ اَفْطَرَ فِیْ نَھَارِہٖ وَاسْتَدَلَّ بِہٖ ھٰذَا الْقَائِلُ عَلٰی اَنَّہٗ اِذَا سَافَرَ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجَرِ صَائِمًا لَہٗ اَنْ یُّفْطَرَ فِیْ یَوْمِہٖ۔ ‘‘

(مسلم کتاب الصوم بَابُ جَوَازِالصَّوْمِ وَالْفِطْرِ فِیْ شَھْرِ رَمَضَانَ لِلْمُسَافِرِ ……الخ حاشیہ نووی)

’’یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جس روز مدینہ سے روانہ ہوئے اسی روز اس مقام پر پہنچ کر دن کے وقت ہی روزہ توڑ ڈالا۔ اور اس سے ان لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ جو شخص طلوعِ فجر کے بعد روزہ رکھ کر سفر پرنکلے اس پر واجب ہے کہ وہ دن ہی میں روزہ توڑ دے۔

لیکن جن علماء نے اس سے اختلاف کی ہے ان کا خیال ہے ’’لَا یَجُوْزُ الْفَطْرُ فِی ذَالِکَ الْیَوْمِ وَ اِنَّمَا یَجُوْزُ لِمَنْ طَلَعَ عَلَیْہِ الْفَجَرُ فِی السَّفَرِ۔ ‘‘( ایضاً)

یعنی روزہ کی حالت میں سفر پر نکلنے والوں کے لیے اس دن روز ہ رکھنا جائز نہیں۔ بلکہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر سفر کی حالت میں صبح طلوع کرے تو مسافر کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے۔

مطلب یہ ہے کہ اس خیال کے علماء کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو رمضان کے مہینے میں دن کے وقت تمام لوگو ں کو دکھا کر پانی پیا تھا وہ سفر کا پہلا دن نہیں بلکہ دوسرا دن تھا اور آپ نے دوسرے دن روزہ نہیں رکھا تھا۔

یہاں ہمیں علماء کے اس اختلاف میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ جو بات بہر حال ثابت ہے اور جس سے کسی عقید ہ یا خیال کے عالم کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ میں سفر کی حالت میں نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھا بلکہ تمام لوگوں کو دکھا کر دن کے وقت پانی پیا۔ اس حدیث کے الفاظ ’’فَرَفَعَہٗ اِلٰی یَدَیْہِ لِیَرَاہُ النَّاسُ‘‘اس ضمن میں بالکل واضح ہیں۔ یہاں تک کہ امام بخاریؒ نے تو باب کا عنوان ہی ’’مَنْ اَفْطَرَ فِی السَّفَرِ لِیَرَاہُ النَّاسُ‘‘رکھا ہے۔ یعنی وہ شخص جو رمضان میں لوگوں کو دکھا کر کھا نا کھائے۔

ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس سنت سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی مسافر رمضان میں عام لوگو ں کے سامنے کھائے پیئے تو اس میں کوئی قابل ِ اعتراض بات نہیں۔ اور اس پر ’’عدمِ احترامِ رمضان‘‘ کا خود ساختہ نعرہ لگانا جا ئز نہیں۔

در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی امر تسر میں اپنے آقا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اسی سنت پر عمل فرمایا اور لوگوں کے سامنے سفر کی حا لت میں چائے پی لی۔

یہ اعتراض کرنے والے احراری اگر سفر حدیبیہ کے وقت مقام عسفان پر موجود ہوتے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کرنے سے بھی باز نہ آتے۔

و۔’’مَنْ لَمْ یَقْبَلْ رُخْصَۃَ اللّٰہِ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلُ جِبَالِ عَرَفَۃَ۔ ‘‘

( مسند احمد بن حنبلؒ مسند عبداﷲ بن عمر حدیث نمبر ۵۳۶۹ بحوالہ جامع الصغیر السیوطیؒ باب المیم جلد۲)

’’یعنی جو کوئی اﷲ کی دی ہوئی رخصتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتااس پر عرفہ پہاڑ کے برابر گناہ ہے۔‘‘

ز۔اوپر بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ پیش کیا جا چکا ہے۔ اب اُمت محمدیہ کے مایۂ ناز ولی اﷲ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کا بھی ایک واقعہ ملاحظہ فرما یئے:۔

یاد رہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ اس شان کے بزرگ ہیں کہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ نے ان کی نسبت فرمایا ہے :۔

’’اَبُوْ یَزِیْدَ مِنَّا بِمَنْزِلَۃِ جِبْرِیْلَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ۔ ‘‘ یعنی ابو یزید ؒ ہمارے (اولیاء اُمت کے ) درمیان ایسا ہے کہ جیسے جبرائیل فرشتوں میں۔

(تلخیص از کشف المحجوب مصنفہ حضرت داتا گنج بخشؒ مترجم اردو تیسری فصل۔ شیخ ابوحمدانؒ کی ملامت کی حقیقت )

علاوہ ازیں خود حضرت داتا گنج بخش صاحبؒ نے حضرت بایزیدبسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کے مزار پر کئی کئی ماہ تک مجاورت بھی کی۔ چنانچہ خود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ میں کہ علی بن عثمان جلابی رحمۃ اﷲ علیہ کا بیٹا ہوں۔ ایک وقت مجھے مشکل پیش آئی اور میں نے بہت کوشش کی اس امید پر کہ مشکل حل ہو جائے گی، مگر حل نہ ہوئی۔ اس سے پہلے مجھے اس قسم کی مشکل پیش آئی تھی اور میں شیخ ابو یزیدؒ کی قبر پر مجاور ہوا تھا تآنکہ مشکل حل ہوئی۔ اس مرتبہ بھی میں نے وہاں کا ارادہ کیا اور تین مہینے اس کی قبر پر مجاور ہوا تھا اور ہر روز تین مرتبہ غسل اور تیس مرتبہ وضو کرتا تھا۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب چوتھا باب ’’ملامت میں ‘‘ذکر شیخ ابو حمدانؒ کی ملامت کی حقیقت)

اب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کا واقعہ بھی حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ کی زبانی سنیے:۔

’’ابو یزیدرحمۃ اﷲ علیہ……حجاز سے آ رہے تھے اور شہر رےؔ میں یہ چرچا ہوا کہ بایزیدؒ آئے ہیں۔ شہر کے لوگ استقبال کو گئے تا کہ ادب اور تعظیم سے ان کو لائیں۔ ابو یزید ان کی خاطر داری میں مشغول ہوئے اور راہِ حق سے رہ کر پریشان ہوئے۔ اور جب بازار سے آئے تو آستین سے ایک روٹی نکال کر کھانے لگے۔ اور یہ ماجرا رمضا نِ مبارک میں ہوا۔سب لوگ اس سے برگشتہ اور بے اعتقاد ہوئے اور ان کو اکیلا چھوڑ دیا۔پھر ابو یزید ؒ نے اس مرید سے جو ان کے ساتھ تھا کہا کہ ’’تو نے دیکھا ہے کہ میں نے شریعتِ مبارک کے ایک مسئلہ پر عمل کیا سب خلقت نے مجھے ردّ کیا۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب ’’ملامت کا بیان‘‘ چوتھا باب مترجم اردو۔ یہی واقعہ تذکرۃ الاولیاء اردو صفحہ ۱۰۷ باب چودھواں اور ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغدین سراجدین جلالی پرنٹنگ پریس بار سوم صفحہ ۱۳۵۔ ۱۹۱۷ء پر بھی درج ہے۔)

ح۔ظہیر الاصفیاء اردو ترجمہ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت معروف کرخی رحمۃ اﷲ علیہ کا بھی ایک واقعہ درج ہے کہ آپ نے رمضان کے مہینہ میں عین بازار میں پانی پیا۔( باب ۲۹صفحہ ۱۷۵ )
 
Top Bottom