اعتراض 2۔ مرزا صاحب نے اپنی کتابوں میں بعض حوالے غلط دیئے ہیں مثلا ھذا خلیفۃ اللہ المھدی بخاری میں نہیں ہے۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 2۔ مرزا صاحب نے اپنی کتابوں میں بعض حوالے غلط دیئے ہیں مثلا ھذا خلیفۃ اللہ المھدی بخاری میں نہیں ہے۔

ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ

الجواب:۔نبی کو ہم سہو اور نسیان سے پاک نہیں مانتے۔

۱۔قرآن میں ہے:۔(طٰہٰ:۱۱۶) کہ آدم بھول گیا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ’’‘‘(الکہف:۶۲) کہ وہ مچھلی بھول گئے اور آگے لکھا ہے کہ شیطان نے انہیں بھلادیا۔ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (الکہف:۱۱۱) نیز اُصِیْبُ وَ اُخْطِیءُ (نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحہ ۳۹۳) کہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں۔ بعض دفعہ خطا کرتا ہوں۔

۲۔بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو(۲) رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا’’ وَ رَجُلٌ یَدْعُوْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاالْیَدَیْنِ فَقَالَ اَنَسِیْتَ اَمْ قُصِرَتْ؟ فَقَالَ ’’لَمْ اَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ قَالَ بَلٰی قَدْ نَسِیْتَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ۔ ‘‘دوسری روایت میں ہے فَقَالَ اَ کَمَا یَقُوْلُ ذُوالْیَدَیْنِ؟ فَقَالُوْا نَعَمْ فَتَقَدَّمَ فَصَلَّی مَا تَرَکَ ( بخاری کتاب السہو باب یکبر فی السجدتی السھو و باب تشبیک الاصابع فی المسجدوغیرہ) کہ ایک شخص وہاں موجود تھا جس کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ذوالیدین کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز قصر کرکے حضورؐ نے پڑھی ہے؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز قصر کی گئی ہے ۔اس پر اس صحابی ؓ نے جواب دیا کہ حضور ؐ بھول گئے ہیں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے باقی صحابہ سے پوچھا کہ کیا ذوالیدین ٹھیک کہتا ہے؟ تو سب نے جواب دیا کہ ہاں! وہ ٹھیک کہتا ہے۔پس آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم قبلہ رُوکھڑے ہوئے اور دو رکعتیں جو آپ نے چھوڑ دی تھیں پڑھیں اور بعد میں سجدہ سہو بھی کیا۔

(نیز دیکھو صحیح مسلم کتاب الصلٰوۃ باب السہو فی الصلٰوۃ و السجود لہٗ )

اب کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول ’’لَمْ اَنْسَ وَ لَمْ تُقْصَرْ‘‘ کو کوئی جھوٹ قرار دے سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔

۴۔ صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے۔ عَنْ اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَءَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ فَقَرَءَ عَلَیْہِ (سورۃ البینہ:۲)وَقَرَءَ فِیْھَا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْمُسْلِمَۃُ وَ لَا الْیَہُوْدِیَّۃُ وَلَاا لنَّصْرَانِیَّۃُ وَلَا الْمَجُوْسِیَّۃُ مَنْ یَّعْمَلْ خَیْرًا فَلَنْ یُّکْفَرَہٗ وَقَرَأَ عَلَیْہِ لَوْ اَنَّ لِاِبْنِ اٰدَمَ وَادِیًا مِّنْ مَّالٍ لَّابْتَغٰی اِلَیْہِ ثَانِیًا وَلَوْ کَانَ لَہٗ ثَانِیًا لَّابْتَغٰی اِلَیْہِ ثَالِثًا وَلَا یَمْلَا ءُ جَوْفَ ابْنَ اٰدَمَ اِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ اِلَی اللّٰہِ ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

(ترمذی ابواب مناقب فی فضل ابی ابن کعب )

کہ حضرت ابی کعب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کر سناؤں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’‘‘والی سورۃ پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں دین صرف خالص اسلام ہے۔ نہ یہودیت نہ نصرانیت اور نہ مجوسیّت۔ پس جو اچھا کام کرے اس کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور اگر بنی آدم (انسان ) کے لئے ایک وادی مال و دولت سے بھری ہوتی تو ضرور وہ ایک دوسری وادی چاہتا ۔ اور اگر اس کو دوسری وادی بھی مل جاتی تو وہ تیسری کی تلاش کرتا اور انسان کے پیٹ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی ۔ اورخدا تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ اور یہ حدیث صحیح ہے ۔

اب اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْمُسْلِمَۃُ الخ کو قرآن مجید والی سورۃ کی آیات قرار دیا ہے ذرا کوئی مولوی صاحب والی سورۃ میں تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ سے نکال کر دکھائیں

نوٹ:۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ’’یہ آیات‘‘ منسوخ ہوگئی ہیں ۔ کیونکہ یہ بات کہ خدا کے نزدیک دین حنفیۃ المسلمہ ہے اور یہ کہ انسان بڑا حریص ہے ۔یہ سب اخبار ہیں نہ کہ احکام۔ اور اس پر سب غیر احمدی علماء کا اتفاق ہے کہ اخبا ر میں نسخ جائز نہیں۔

۲۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب خدا کے نزدیک دین ’’حنفیۃ المسلمہ‘‘ نہیں بلکہ یہودیت اور نصرانیت ہوگیا ہے؟

۳۔ان آیا ت کی ناسخ کونسی آیت ہے جس کی وجہ سے یہ آیات منسوخ ہوگئی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ حدیث مذکور بالا میں لفظ ’’قَرَءَ فِیْھَا ‘‘ہے یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سورۃ میں یہ عبارت پڑھی تھی اس کو سورۃ کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا ورنہ ’’قَالَ فِیْھَا ‘‘ کہنا چاہیے تھا ۔

۴۔علامہ سعد الدین تفتا زانی، ملا خسرو، ملا عبد الحکیم ان تینوں نے لکھا ہے کہ حدیث تَکْثُرُ لَکُمُ الْاَحَادِیْثُ بَعْدِیْ بخاری میں ہے۔ حالانکہ یہ حدیث موجودہ بخاری میں نہیں ہے۔

(توضیح مع حاشیہ التلویح شرح الشرح مطبع کریمیہ قزان ۱۳۳۱ھ جلد ۱ صفحہ۴۳۳)

اسی طرح سے حدیث خَیْرُ السَّوْدَانِ ثَلَاثَۃٌ لُقْمَانُ وَ بَلَالٌ وَ مَھْجَعْ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِیْ صَحِیْحِہٖ۔عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الْاَسْقَعِ بِہٖ مَرْفُوْعًا کَذَا ذَکَرَہُ ابْنُ الرَّبِیْعِ لٰکِنْ قَوْلُ الْبُخَارِیِّ سَھْوُ قَلَمٍ اَمَّا مِنَ النَّاسِخِِ اَوْ مِنَ الْمُصَنَّفِ فَاِنَّ الْحَدِیْثَ لَیْسَ مِنَ الْبُخَارِیِّ۔

(موضوعات کبیر ازمولانا علی القاری صفحہ ۶۴ناشر نور محمد اصح المطابع کارخانہ تجارت آرام باغ کراچی مطبع ایجوکیشنل پریس کراچی)

کہ ’’حدیث سوڈان کے بہترین آدمی تین ہیں یعنی(۱) لقمان(۲) بلال (۳) مہجع جو آنحضرت صلعم کے غلام تھے ۔ یہ حدیث بخاری میں واثلہ بن الاسقع ؓ سے مرفوعاً مروی ہے۔ حضرت مُلَّا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ علامہ ابن ربیع کا یہ کہنا کہ یہ حدیث بخاری میں ہے یہ یا تو مصنف کا سہو قلم ہے اور یا کاتب کا۔ کیونکہ یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے۔

وہ مولوی جو ’’فَاِنَّہٗ خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘(ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی ) والی حدیث کے بخاری میں نہ ملنے پر حضرت مسیح موعود ؑ پر کاذب ہونے کا الزام لگاتے ہیں کیا وہ اپنے علامہ سعد الدین تفتازانی۔ ملّا و علامہ خسرو، ملّا عبد الحکیم اور علامہ ابن الربیع کو بھی کاذب کہیں گے؟

۶۔امام بیہقی ؒ کی کتاب ’’الاسماء والصفات‘‘ ناشر دار احاء التراث العربی صفحہ ۴۲۴ میں لکھا ہے کہ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَآءِ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ کہ بخاری میں ہے کہ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ……مِنَ السَّمَآءِ ۔ حالانکہ قطعاً بخاری میں مِنَ السَّمَآءِ کا لفظ نہیں ہے۔

(وَھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ )حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب شہادۃ القرآن صفحہ ۴۱ ایڈیشن اوّل میں جو یہ لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری میں ہے۔ اس کے متعلق بھی ہم وہی جواب دیتے ہیں جو حضرت ملا علی قاری ؒ نے امام ابن الربیع کی طر ف سے دیا تھا ۔ وَلٰکِنْ قَوْلُ الْبُخَارِیِّ سَھْوُ قَلَمٍ اَمَّا مِنَ النَّاسِخِ اَوْ مِنَ الْمُصَنَّفِ (موضوعات کبیر صفحہ۶۴) کہ یہ قول کہ یہ حدیث بخاری میں ہے یا تو سہو کتابت ہے یا سبقتِ قلمِ مصنف۔ ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں صاف طور پر فرمادیاہے:۔

’’میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں اِسی وجہ سے امامین حدیث(بخاری و مسلم۔ خادمؔ) نے ان کو نہیں لیا۔‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۴۰۶)

گویا بخاری ومسلم میں مہدی کے متعلق احادیث نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘ (آسمان سے آواز آنا کہ یہ خدا کا خلیفہ مہدی ہے) بہرحال مہدی کے متعلق ہے۔ پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اپنے صاف بیان کے مطابق یہ حدیث بخاری میں نہیں۔ ہاں یہ حدیث اسی طرح صحیح ہے جس طرح بخاری کی دوسری احادیث کیونکہ کَذَا ذَکَرَہُ السُّیُوْطِیْ وَفِی الزَّوَائِدِ: ھٰذَا اَسْنَادٌ صَحِیْحٌ۔ رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ۔ وَرَوَاہُ الْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرِکِ وَقَالَ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی)کہ حدیث ’’ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘ کو امام سیوطیؒ نے بھی ذکر کیا ہے اور زوائد میں ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں اس کو اما م حاکم ؒ نے مستدرک کتاب التاریخ باب تذکرۃ الانبیاء ھبوط عیسٰی…… میں درج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق بھی صحیح ہے۔ نیز یہ حدیث ابو نعیم اور تلخیص المتشابہ و حجج الکرامۃ صفحہ ۳۶۶ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال پر درج ہے۔

بھلا تم لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا سکتے ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کو تم نبی مانتے ہو اور جن کے متعلق قرآن مجیدمیں ہے(مریم: ۴۲) کہ وہ سچ بولنے والے نبی تھے تم ان کے متعلق بھی یہ کہتے اور مانتے ہو کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے۔

بخاری میں ہے:۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ اِلَّا ثَلَاثًا…… عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ (بخاری کتاب بدء الخلق باب قول اﷲ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا و مشکوٰۃ باب بد ء الخلق وذکر الانبیاء علیہم السلام پہلی فصل نیز مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ابراہیم خلیل اﷲ) کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہ بولا مگر تین جھوٹ۔

۲۔صحیح ترمذی میں ہے:۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ شَیْءٍ قَطُّ اِلَّا فِیْ ثَلَاثٍ قَوْلُہٗ اِنِّیْ سَقِیْمٌ وَلَمْ یَکُنْ سَقِیْمًا وَقَوْلُہٗ لِسَارَۃَ اُخْتِیْ وَقَوْلُہٗ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُ ھُمْ …… ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔(ترمذی ابواب التفسیر سورۃ الانبیاء)

کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کبھی کسی چیز میں جھوٹ نہ بولا۔ مگر صرف تین موقعوں پر۔ ان کا کہنا کہ میں بیمار ہوں حالانکہ وہ بیمار نہ تھے ۔ پھر ان کا کہنا کہ یہ بُت ان کے بڑے بُت نے توڑے ہیں اور ان کا اپنی بیوی سارہ کو کہنا کہ یہ میری بہن ہے……یہ حدیث صحیح ہے۔

۳۔بخاری میں ہے کہ قیامت کے دن جب سخت گھبراہٹ طاری ہوگی اور لوگ بھاگے بھاگے سب انبیاء کے پاس جائیں گے کہ وہ ان کی خداتعالیٰ کے حضور شفاعت کریں۔ توسب انکار کردیں گے۔ جب وہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو فَیَقُوْلُ لَھُمْ اِنَّ رَبِّیْ قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضْبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہٗ مِثْلَہٗ وَلَنْ یَّغْضَبَ بَعْدَہٗ مِثْلَہٗ وَاِنِّیْ قَدْ کُنْتُ کَذَبْتُ ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ فَذَکَرَ ھُنَّ اَبُوْ حَیَّانَ فِی الْحَدِیْثِ نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ۔ ‘‘

(بخاری کتاب التفسیر باب ذریّۃ من حملنا مع نوح)

حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو جواب دیں گے کہ میرا ربّ آج سخت غصہ میں ہے کہ ا س سے قبل کبھی اتنا غضبنا ک نہ ہواتھا اور نہ آج کے بعد کبھی ایسا غضبناک ہوگا او ر میں نے تین جھوٹ بولے تھے (ابو حیان نے ایک حدیث میں ان تینوں جھوٹوں کی تفصیل دی ہے)پس مجھے تو اپنے نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔

جس نبی کو قرآن کریم سچا کہتا ہے تم اس کے متعلق کہتے ہو کہ اس نے نعوذ باﷲ تین جھوٹ بولے۔ گویا تمہارے نزدیک جھوٹ بولنا معیار صداقت ہے۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اگر تم اعتراض کرو تو تم معذور ہو۔ ؂

مجھ کو کیا تم سے گلہ ہو کہ مرے دشمن ہو

جب یونہی کرتے چلے آئے ہو تم پیروں سے
 
Top Bottom