اعتراض 18۔ اعتراض ۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے مجھے مراق ہے۔ پس ثابت ہو ا مرزا صاحب نبی نہ تھے

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض ۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے مجھے مراق ہے (بد ر جلد ۲ نمبر ۲۳ صفحہ ۵ کالم نمبر ۲۔ ۷ جون۱۹۰۶ء) اور مراق کا ترجمہ ہے۔ ہسٹیریا بقول مرزا بشیر احمد صاحب (سیرۃ المہدی جلد ۱ صفحہ ۱۳ مطبوعہ ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء)اور جس کو ہسٹیر یا ہو، وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ بقول ڈاکٹر شاہ نواز خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن جہلم (ریویوآف ریلجنز جلد ۲۵ جلد ۸ صفحہ۱۱،۱۲ و ۲۹۲ اگست ۱۹۲۶ء)پس ثابت ہو ا مرزا صاحب نبی نہ تھے ان کو کا ٹا لیپسی CATALEPSY کا مرض تھا۔(رسالہ مراق مرزا مؤلفہ حبیب اﷲ صفحہ ۲)


جواب:۔ (۱) خدا کے انبیا ء کو ہمیشہ مجنون ہی کہا جاتا ہے۔ قرآن میں کہا ہے (الصّٰفٰت:۳۷)

(۲) سب انبیاء کے سردارآنحضرت صلعم کے بد باطن دشمنوں نے آپؐکے متعلق بھی یہی بکواس کی تھی۔ چنانچہ ملاحظہ ہو کتاب

"A Contribution to the History of Islamic Civilisation"

(by Von Kremer Page 180-185)

اصل الفاظ یہ ہیں :۔

"Our acquaintance with the fable, later on repeated with a peculiar zest, that Mohammed invented the story of his intercourse with Gebriel in order to allay the anxiety of Khadijah for epileptic fits with which he was often seized.

ii Guibert of Nogent writes, Mohammed however, was soon seized with epileptic fits, and Khadijah frightened and alarmed at this malady, hastened to the hermit for an explanation. She was, thereupon assured that the apparent epilepsy was only the condition in which Mohammed was honoured with divine revelations."

۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ مجھ کو مراق ہے۔ یہ غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’مراق‘‘ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑکو’’دوران سر‘‘ یعنی ’’سر درد‘‘ کا مرض ضرور تھا۔ اورحضرتؑ نے اپنی قریباً ہر ایک کتاب میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر حضور نے ایک مقام پر بھی اس کا نام مراق نہیں رکھا۔ بدر ۷ جون ۱۹۰۶ء جس کا حوالہ معترضین نے دیا ہے وہ حضرت کی تحریر نہیں بلکہ ڈائری ہے۔ اور ڈائری حضرت مسیح موعودؑکی تحریر کے بالمقابل اور خلاف ہونے کی صورت میں حجت نہیں۔ پس اگر’’مراق کے لفظ سے مراد مالیخولیا‘‘ ہے تو یہ حضرت کی تحریرات کے سراسر خلاف ہے۔ لہٰذا قابل قبول نہیں۔ حضرت نے جب صدہا مرتبہ اسی بیماری کا نام اپنی تحریرات میں ’’دوران سر‘‘ تحریر فرمایا ہے اور ایک جگہ بھی’’مراق‘‘ نہیں لکھا تو ڈائری اس کے خلاف پیش نہیں ہوسکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر کوئی خبیث مرض دامنگیر ہو جائے جیسا کہ جذام اور جنون اور اندھا ہونا اور مرگی۔ تو اس سے یہ لوگ نتیجہ نکالیں گے کہ اس پر غضب الٰہی ہو گیا اس لئے پہلے سے اُس نے مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہریک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھوں گا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کرونگا۔‘‘

(اربعین نمبر ۳۔ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۴۲۹ حاشیہ)

۴۔الزامی جواب

تم لوگ ہمیشہ خدا کے نبیوں کے متعلق ایسی ایسی باتیں گھڑتے ہی رہتے ہو جس سے انہیں خللِ دماغ کا مریض تسلیم کرنا پڑے۔ حضرت مرزا صاحب کے تو تم دشمن ہو مگر تم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے متعلق لکھ دیا کہ آپؐپر جادو کا اثر ہوگیا اور آپؐ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ آپ سمجھتے تھے کہ میں نے فلاں کام کیا ہے حالانکہ آپ نے نہ کیا ہوتا تھا۔ ( گویا نعوذباﷲ حواس قائم نہ رہے تھے )۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:۔

’’عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ سُحِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ…… حَتّٰی کَانَ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ اِنَّہٗ یَفْعَلُ الشَّیْءَ وَمَا یَفْعَلُہٗ۔ ‘‘

(بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ۔ تجرید بخاری از علامہ حسین بن مبارک زبیدی ۹۰۰ ھ فیروز الدین اینڈ سنز لاہور)

ترجمہ از تجرید بخاری:۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں کہ( ایک مرتبہ) نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا (ا س سے) آپ کو خیال ہوتا کہ ایک کام کیا ہے حالانکہ آپ نے اس کو کیا نہ ہوتا۔‘‘

پھر باوجود ان روایا ت کے حضرت مسیح موعودؑپر اعتراض کرو تو معذور ہو۔ کیونکہ یرقان کے مریض کو ہر چیز زرد ہی نظر آتی ہے۔ باقی رہا ’’دورانِ سر‘‘ اور اس پر مذاق اوّل تو اس لئے کہ مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب خروج الدجّال و نزول مسیح جلد ۲ مصری کی حدیث میں ہے کہ مسیح موعودؑدو زرد چادریں پہنے ہوئے ہو گا۔ یہ آپ کی صداقت کی دلیل ہے اور اس لئے بھی کہ ڈاکٹری کی رو سے دورانِ سر دماغ کے اعلیٰ ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔

"The Subjects of Migraine are nearly always of an active capable and intelligant type."

(A Text Book of The Practice of Medicine. U.W.Migraine)

’’یعنی دورانِ سر کے مریض قریباً ہمیشہ قابل اور عالی دماغ آدمی ہوتے ہیں۔‘‘

باقی رہا سائل کا طرز استدلال۔ سو وہ خود ہی اس کی غلطی پر گواہ ہے ۔حضور نے کب کہا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بے شک حضرت اُمّ المومنین کی زبانی ہسٹیریا کا لفظ بولا ہے۔ مگر( اوّل) آپ کوئی ڈاکٹر نہیں ہیں کہ جو ترجمہ دوران سر کا کیا ہے وہ درست ہو اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہسٹیریا کا مرض تھا۔ پس تیسرا حوالہ جو معترض نے نقل کیا ہے وہ بھی بے فائدہ ہے۔ نہ حضرت اپنی نسبت ہسٹیریا تسلیم کرتے ہیں نہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہسٹیریا کا ترجمہ مالیخولیا کرتے یا سمجھتے ہیں۔ پس مخالف کا استدلال قطعاً باطل ہے۔ ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب نے محولہ بالا رسالہ میں طبی نقطۂ نگاہ سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑکو قطعاً ہسٹیریا نہ تھا۔ ہم نے جو انگریزی عبارتیں (VON KREMER)کی نقل کی ہیں ان میں وہ آنحضرت صلعم کی نسبت (EPILEPSY)کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اور لطف یہ کہ مولوی ثناء اﷲ نے حضرت مسیح موعود ؑکی نسبت (CATALEPSY)کا لفظ استعمال کیا ہے اور انگریزی ڈکشنری میں دونوں کا ترجمہ ایک ہی بتایا گیا ہے۔ ’’‘‘ (البقرۃ:۱۱۹)

نوٹ۔ اسی کتاب کے صفحہ ۱۸۵ و صفحہ ۱۸۸ پر VON KREMER (فان کریمر)نے آنحضرتؐ کی وفات کے متعلق ایسی گندی اور ناقابل بیان فحش نویسی کی ہے کہ ہم اسے یہاں انگریزی میں بھی نقل نہیں کر سکتے۔ ان غیر احمدیوں کو جو حضرت مسیح موعودؑکی وفات کے متعلق فحش کلامی کیا کرتے ہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ وہ اس قدر دلآزا ر ہے کہ حضرت مسیح موعودؑکے متعلق جو کچھ غیراحمدی کہا کرتے ہیں وہ دسواں حصہ بھی اس تحریر کے مقابلہ میں دل آزار نہیں۔
 
Top Bottom