اعتراض ۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے فرمایاکہ مجھے حیض ہوا ، حمل ہوا اور درد زہ ہوئی اور میں مریم سے عیسیٰ علیہ السلام بن گیا۔

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
حیض ،حمل اور در د زِہ کی تشریح

بخاری میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث ہے :۔

’’مَامِنْ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ اِلَّا وَالشَّیْطَانُ یَمَسُّہٗ حِیْنَ یُوْلَدُ فَیَسْتَھِلُّ صَارِخًا مِنْ مَّسِّ الشَّیْطَانِ اِیَّاٗہ اِلَّا مَرْیَمَ وَابْنَھَا (بخاری کتاب التفسیر باب و انی اعیذھا بک…… کتاب بدء الخلق باب قول اللّٰہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم )کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو بوقتِ ولادت شیطان مس کرتا ہے اور بچہ جب اسے مسِّ شیطان ہوتا ہے تو وہ چیختا ہے، چلاتا ہے۔ مگر مریم اور ابن مریم کو مسِّ شیطان نہیں ہوتا ۔

اس پر طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب صرف ’’مریم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ ہی مسِّ شیطان سے پاک ہیں تو پھر کیا باقی انبیاء کو عموماً اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خصوصاً مسِّ شیطان ہوا تھا ؟ اس کا جواب علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں یہ دیا ہے:۔ ’’مَعْنَاہُ اِنَّ کُلَّ مَوْلُوْدٍ یَطْمَعُ الشَّیْطَانُ فِیْ اَغْوَائِہٖ اِلَّا مَرْیَمَ وَابْنَھَا فَاِنَّھُمَا کَانَا مَعْصُوْمَیْنِ وَکَذٰلِکَ کُلُّ مَنْ کَانَ فِیْ صِفَتِھِمَا۔ ‘‘(تفسیر کشاف زیر آیت واذکر فی الکتاب مریم)کہ اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ شیطا ن ہر بچہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ سوائے مریم اور ابن مریم کے۔ کیونکہ وہ دونوں پاک تھے اور اسی طرح ہر وہ بچہ (بھی اس میں شامل ہے) جو مریم اور ابن مریم کی صفت پر ہے ۔

گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث میں مریمؔ اور ابن مریم سے صرف دو انسان ہی مراد نہیں ۔بلکہ دو قسم کے انسان مرا د ہیں۔ گویا جو مریمی صفت میں اور ابن مریمی صفت میں مومن اور انبیاء ہوں وہ سب ’’مریم‘‘ اور ’’ابن مریم‘‘ کے نام سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یاد کئے گئے ہیں ۔ان صفات کی مزید تشریح قرآن مجید میں ہے :۔

(التحریم: ۱۲،۱۳) کہ اﷲ تعالیٰ نے مومن مردوں کی مثال فرعون کی بیوی (آسیہ) کے ساتھ دی ہے۔ جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے ربّ! میرے لیے جنت میں گھر بنا اور مجھ کو فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور ان ظالموں کی قوم سے مجھ کو رہائی بخش ۔نیز (خدا نے مثال دی ہے مومن مردوں کی) مریم بنت عمران کے ساتھ جس نے اپنی شرمگاہ کی پوری حفاظت کی۔ پس ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی اور وہ خدا کے کلام اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہوئی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی ۔

ان آیات سے ماقبل کی ملحقہ آیا ت میں کافر مردوں کو دو عورتوں نوحؑ اور لوط علیہما السلام کی بیویوں سے تشبیہ دی گئی ہے ۔کیونکہ ان کے خاوند مومن تھے مگر وہ دونوں کافرہ تھیں۔ مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ مومن دو قسم کے ہوتے ہیں (۱)آسیہ( زو جہ فرعون )صفت(۲)مریمی صفت پہلے وہ مومن جو کفر کے غلبہ کے نیچے دب چکے ہوں اور وہ اس سے نجات پانے کے لیے دست بدعا ہوں۔ اور دوسرے وہ مومن جن پر روزِ ازل سے ہی بدی غلبہ نہ پاسکی۔ (الانبیاء :۹۲) یہ دوسری قسم کا مومن قرآنی اصطلاح میں ’’مریم‘‘ کہلاتا ہے۔ پھر وہ مریمی حالت سے ترقی کرکے ( ۔الانبیاء:۹۲)کے مطابق ’’ابن مریم‘‘ کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ کیونکہ مقام مریمی صدیقیت ہے اور مقامِ ابن مریم مقامِ نبوت۔ گویا ہر نبی پر دو زمانے آتے ہیں۔ پہلے وہ مقامِ مریمی میں ہوتا ہے او ر اسی حالت کے متعلق قرآنِ مجید نے (یونس:۱۷)میں اشارہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس مریمی حالت سے ترقی کرکے نبوت کے مقام پر فائز ہوجاتا ہے اور ان دونوں حالتوں میں وہ مسِّ شیطان سے پاک ہوتا ہے۔ یہی معنی ہیں بخاری کی مندرجہ عنوان حدیث کے۔

سورۃ تحریم کی آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح حضرت مریم صدیقہؑ اپنی پاکیزگی کے انتہائی مقام پر پہنچ کر حاملہ ہوئیں اوراس حمل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو خدا کے نبی تھے پیدا ہوئے۔ اسی طرح ایک مومن مرد بھی پہلے مریمی حالت میں ہوتا ہے اور پھر ایک روحانی اور مجازی حمل سے گذرتا ہوا مجازی ’’ابن مریم‘‘ کی ولادت کا باعث ہوتا ہے۔ وہ مومن مرد مجاز اور استعارہ کے رنگ میں ’’مریم‘‘ ہوتا ہے اور مجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں حمل سے گزرتا ہے۔ او رمجاز اور استعارہ ہی کے رنگ میں ’’ابن مریم‘‘ کی ولادت کا باعث ہوتا ہے ۔خد اتعالیٰ نے تمام کافروں اور مومنوں کو چار عورتوں ہی سے تشبیہدی ہے۔ مرد عورتیں تو نہیں ہاں استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ان کو عورتیں قرار دیا گیا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ حضرت شیخ فرید الدین عطّار رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت عباسیہ طوسی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے ۔

’’قیامت کے دن جب آواز آئے گی کہ اے مردو! تو مردوں کی صف میں سے سب سے پہلے حضرت مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام کا قدم پڑے گا۔ ‘‘
(تذکرۃ الاولیاء ذکر حضرت رابعہ بصری نواں باب صفحہ۵۱شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز لاہور وظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء صفحہ۵۵)

اسی نکتۂ معرفت کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مندرجہ ذیل اشعار میں اشارہ فرمایا ہے ؂

مدّتے بودم برنگِ مریمی دست نادادہ بہ پیرانِ زِمی
بعد ازان آن قادر و ربّ مجید رُوح عیسیٰ اندران مریم دمید
پس بہ نفخش رنگ دیگر شد عیان زاد زان مریم مسیح این زمان

(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۵۲)

پھر فرمایا ’’یعنی وہ مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا ۔‘‘

(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۴۸)

اس موقعہ پر ’’کشتی نوح‘‘ کی اصل عبارت سیاق وسباق کے ساتھ پڑھنی چاہیے ۔

۱۴۔روحانی حمل

روحانی حمل اور معنوی حمل کے لئے مندرجہ ذیل حوالے یاد رکھنے چاہئیں :۔

۱۔ ’’اَلْخَوْفُ ذَکَرٌوَالرِّجَاءُ اُنْثٰی مِنْھُمَا یَتَوَلَّدُحَقَائِقُ الْاِیْمَانِ۔ ‘‘

(التعرف لمذھب اھل التصوف قولھم فی التقویٰ صفحہ ۹۸)

مشہور صوفی حضرت سہل رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ خوف مذکر اور امید مونث ہے اور ان دونوں کے ملنے سے حقائقِ ایمان پیدا ہوتے ہیں۔

۲۔اسی طرح سے امام الطائفہ الشیخ سہروردی فرماتے ہیں:۔

’’یَسِیْرُ الْمُرِیْدُ جُزْءَ الشَّیْخِ کَمَا اَنَّ الْوَلَدَ جُزْءُ الْوَالِدِ فِی الْوَلَادَۃِ الطَّبْعِیَّۃِ وَتَصِیْرُ ھٰذِہِ الْوَلاَدَۃُ اٰنِفًا وَّلَادَۃً مَعْنَوِیَّۃً۔ ‘‘ (عوارف المعارف جلدا صفحہ ۴۵)

۳۔قرآن مجید میں ’’حمل‘‘ کا لفظ خداتعالیٰ کے متعلق بھی ہے۔ فرمایا :۔ (مریم: ۵۹) پھر مومنوں کے متعلق بھی آیا ہے۔ (البقرۃ: ۲۸۷) یہاں ’’حمل‘‘ اٹھانے کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ پس محض لفظ ’’حمل‘‘ پر مذاق اڑانا جائز نہیں ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے صاف طور پر لکھ دیا ہے :۔

’’استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا ۔‘‘ (کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۵۰)

اور ’’حمل‘‘ کے لفظ سے حقیقی اور عام معنے مراد نہیں لئے گئے بلکہ ’’حاملِ صفتِ عیسوی‘‘ مراد لیا ہے فرمایا:۔

’’مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا۔‘‘

(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۴۸)

توپھر اس پر بے وجہ مذاق اڑانا شرافت سے بعید ہے ۔

۱۵۔حیض

مندرجہ ذیل حوالے پڑھو۔

۱۔’’کَمَا اَنَّ لِلنِّسَآءِ مَحِیْضًًا فِی الظَّاھِرِ وَھُوَ سَبِبُ نُقْصَانِ اِیْمَانِھِنَّ لِمَنْعِھِنَّ عَنِ الصَّلٰوۃِ وَالصَّوْمِ فَکَذٰلِکَ لِلرِّجَالِ مَحِیْضٌ فِی الْبَاطِنِ ھُوَ سَبَبُ نُقَصَانِ اِیْمَانِھِمْ لِمَنْعِھِمْ عَنْ حَقِیْقَۃِالصَّلٰوۃِ۔ ‘‘(روح البیان زیرآیت وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ وَاتَّقُوااللّٰہَ ……الخ البقرۃ:۲۲۳) کہ جس طرح عورتوں کو ظاہر میں حیض آتا ہے جو ان کے ایمان میں نقص کا موجب ہوتا ہے ان کو نماز اور روزہ سے روک کر۔ اسی طرح مردوں کو بھی باطن میں حیض آتا ہے اور وہ ان کے ایمان میں نقص پیدا کرتا ہے ان کو نماز کی حقیقت سے ناواقف کرنے کے سبب۔ گویا وہ شخص جو حقیقتِ نماز سے بے بہرہ ہو صوفیا کی اصطلاح میں کہیں گے کہ اسے حیض ہے ۔

۲۔ ’’جیسے عورتوں کو حیض آتا ہے ایسا ہی ارادت کے رستہ میں مریدوں کو حیض آتا ہے اور مریدوں کے رستہ میں جو حیض آتا ہے تو وہ گفتار کے رستہ سے آتا ہے اور کوئی مرید ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس حیض میں ٹھرا رہتا ہے اور کبھی اس سے پاک نہیں ہوتا ۔‘‘
(انوار الازکیا ء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء مصنفّہ شیخ فریدالدین عطارؒ مطبع مجیدی کانپور صفحہ ۴۵۰ درذکر ابو بکر واسطیؒ)

نوٹ:۔ غیر احمدیو ں نے اب جو نیا ترجمہ تذکرۃالاولیاء کا شائع کیا ہے اس میں سے یہ عبارت نکال دی ہے۔ مگر ۱۹۲۸ ء سے پہلے چھپے ہوئے ترجموں میں یہ عبارت موجود ہے۔ گویا کی مماثلت کو پورا کیا ہے۔ خادمؔ

۳۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریرفرماتے ہیں:۔

’’ایک دفعہ آپ(حضرت بایزید بسطامیؒ)مسجد کے دروازہ پر پہنچ کر کھڑے ہوگئے اور رونے لگے۔لوگوں نے و جہ پوچھی تو فرمایا کہ میں اپنے آپ کو حیض والی عورت کی مانند پاتا ہوں جو مسجد میں جانے سے بو جہ اپنی ناپاکی کے ڈرتی ہے۔‘‘

(تذکرۃالاولیاء چودھواں باب ذکر خوا جہ با یزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنزصفحہ ۱۰۸ و ظہیر ا لاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغ دین سراج دین صفحہ ۱۰۸)

حضرت بایزید بسطامی ؒ کی عظیم شخصیت

یاد رہے کہ حضرت بایزید بسطامیؒ وہ عظیم الشان انسان ہیں کہ جن کی نسبت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’معرفت کا آسمان اور محبت کی کشتی ابو یزید طیغور بن علی بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ یہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوا ہے اور اس کا حال سب سے بڑا، ا س کی شان بہت بڑی ہے۔اس حد تک کہ جنیدؔ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے اَبُوْ یَزِیْدَ مِنَّا بِمَنْزِلَۃِ جِبْرِیْلَ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ یعنی ابو یزید ہمارے درمیان یسا ہے جیسا کہ جبریل ؑ فرشتوں میں…… اس کی روایتیں بہت بلند ہیں جن میں احادیث پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔اور تصوّف کے دس اماموں سے ایک یہ ہوئے ہیں۔اور اس سے پہلے علمِ تصوّف کی حقیقتوں میں کسی کو اس قدر علم نہ تھا جیسا کہ اس کو تھا ۔اور ہر حال میں علم کا محب اور شریعت کا تعظیم کنندہ ہوا ہے‘‘۔

(کشف المحجوب باب ’’ذکر ان تابعین کا جو مشائخ طریقت کے امام ہوئے ہیں۔‘‘ ترجمہ اردو مطبوعہ ۱۳۲۲ھ صفحہ ۱۲۲)

۴۔بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ کیا کسی نبی نے بھی حیض کا لفظ مردوں کی طرف منسوب کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں مندرجہ ذیل حدیث یاد رکھنی چاہیے ۔حدیث میں ہے۔اَلْکَذِبُ حَیْضُ الرَّجُلِ وَالْاِسْتَغْفَارُ طَھَارَتُہٗ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۱۶۱ سطر۱۷ ۔راوی سلمانؓ)یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹ مرد کا حیض اور استغفار اس کی طہارت ہے۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کا مطلب صرف یہ ہے کہ دشمن تجھ کو جھوٹ یا کسی اور بدی میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خدا کے فضل سے تجھ میں کوئی بدی اور گندگی نہیں۔

۵۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کہیں نہیں لکھا کہ مجھے’’ حیض ‘‘آیا۔بلکہ آپ نے تو اس بات کی نفی کی ہے۔
۶۔حضور ؑ نے لفظ ’’حیض‘‘ کی نفی کرتے ہوئے ساتھ ہی اس کا مفہوم بھی بیان کیا ہے:۔

’’یہ لوگ خون حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ (اربعین نمبر۴۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۵۲ بقیہ حاشیہ)

گویا یہاں عورتوں والا حیض مراد نہیں بلکہ’’مردوں والا حیض ‘‘مراد ہے جیسا کہ حوالہ نمبر۱و۲و۳ وغیرہ میں صوفیاء کرام کی تحریرات اور حدیث شریف سے دکھایا جاچکا ہے۔

۱۶۔دردزہ

اسی طرح دردِزِہ کا محاورہ ہے جو ’’تکلیف ‘‘ اور ’’مصیبت‘‘ کے معنوں میں ہزار ہا سال سے مردوں کے متعلق بھی بولا جاتا رہا ہے۔

۱۔خود حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کی تشریح فرمائی ہے ۔’’مخاض‘‘ دردِزِہ سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں۔بامحاورہ ترجمہ یہ ہے۔’’ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہو جانا تھا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۶۹ بقیہ حاشیہ نیز دیکھو کشتی نوحؑ حاشیہ صفحہ ۷۴)

۲۔انجیل میں ہے :۔’’کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی اور دردِزِہ میں پڑی تڑپتی ہے‘‘ (رومیوں۸/۲۲)
۳۔تورات میں ہے ۔خدا کہتا ہے :۔’’میں بہت مدت سے چپ رہا ۔میں خاموش ہو رہا اور اپنے کو روکتا رہا ۔مگر اب میں اس عورت کی طرح جس کو دردِزِہ ہو چلاؤں گا اور ہانپوں گا اور زور زور سے ٹھنڈی سانس بھی لوں گا‘‘ (یسعیاہ ۴۲/۲۴)
(تفصیل دیکھو صداقت مسیح موعود ؑ پر عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب صفحہ ۹۲)

موجودہ انجیل و تورات خدا کا کلا م ہوں یا نہ ہوں مگر محاورہ تو ماننا پڑے گا کہحضرت مرزاصاحب علیہ السلام نے ایجاد نہیں کیا بلکہ پہلی کتابوں میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ پھر اس پر اعتراض کیا ہے۔ خصوصاً جبکہ حضرت اقدس ؑ نے خود ہی تشریح فرمادی ہے۔

۱۷۔کشف سُرخی کے چھینٹے

جواب ۱۔خواب میں خدا تعالیٰ کو انسانی صورت میں دیکھنا جائز ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ ’’رَأَیْتُ رَبِّیْ فِیْ صُوْرَۃِ شَابٍ اَمْرَدَ قِطَۃٌ لَہٗ وَفْرَۃٌ مِنْ شَعْرٍ وَ فِیْ رِجْلَیْہِ نَعْلَانِ مِنْ ذَھَبٍ۔ ‘‘(الیواقیت والجواہر از علامہ عبدالوہاب الشعرانیؓ جلد۱صفحہ ۷۱ طبرانی و موضوعات کبیر از ملّا علی قاری حرف الرّا مطبع اصح المطابع کراچی) کہ میں نے اپنے رب کو ایک نوجوان بے ریش لڑکے کی صورت میں دیکھا۔اس کے لمبے لمبے گھنے با ل ہیں ۔اور اس کے دونوں پاؤں میں سونے کی جوتیاں ہیں ۔

یہ حدیث صحیح ہے ۔ ملّا علی قاری ؒ جیسے جلیل القدر محدث نے اسے درج کر کے اس کی تائید میں یہ قول نقل کیا ہے۔’’حَدِیْثُ ابْنِ عَبَّاسٍ لَا یُنْکِرُہٗ اِلاَّالْمُعْتَزَلِیُّ۔ ‘‘(موضوعات کبیر صفحہ ۴۶مطبع اصح المطابع کراچی) کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اور اس سے سوائے معتزلی کے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا۔اس حدیث کے معنی ملاّ علی قاریؒ نے کئے ہیں۔’’اِنْ حُمِلَ عَلَی الْمَنَامِ فَلَا اَشْکَالَ فِی الْمَقَامِ۔ ‘‘ (موضوعات کبیر صفحہ ۴۶مطبع اصح المطابع کراچی)

(نوٹ:۔ موضوعات کے بعض ایڈیشنوں میں یہ حدیث اس کے متعلقہ حوالجات صفحہ ۳۹ پر ملتے ہیں) یعنی اگر اس واقعہ کو خواب پر محمول کیا جائے توپھر کوئی مشکل نہیں رہتی ۔بات صاف ہوجاتی ہے۔

۲۔حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی پیرانِ پیر رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔

’’رَأَیْتُ رَبَّ الْعِزَّۃِ فِی الْمَنَامِ عَلٰی صُوْرَۃِ اُمِّیْ۔ ‘‘ (بحر المعانی صفحہ ۶۴)

یعنی میں نے خدا کو اپنی والدہ کی صورت میں دیکھا ۔

۳۔جناب مولوی محمد قاسم صاحب ؒ (نانوتوی بانی ٔ دیوبند ) نے ایامِ طفلی میں یہ خواب دیکھا کہ گویا میں اﷲ جلّ شانہٗ کی گود میں بیٹھا ہوا ہوں ۔ان کے دادا نے یہ تعبیر فرمائی کہ تم کو اﷲ تعالیٰ علم عطا فرمائے گا اور بہت بڑے عالم ہوگے اور نہایت شہرت حاصل ہوگی۔

(سوانح عمری مولوی محمد قاسم صاحب ؒ مؤلّفہ مولوی محمد یعقوب نانوتوی صفحہ ۳۰)

۴:۔پھر لکھا ہے:۔ ’’اِنَّکَ تَرٰی فِی الْمَنَامِ وَاجِبُ الْوُجُوْدِ الَّذِیْ لَا یُقْبَلُ الصُّوَرَ فِیْ صُوْرَۃٍ یَقُوْلُ لَکَ مُعَبِّرُ الْمَنَامِ صَحِیْحٌ مَارَأَیْتَ وَلٰکِنْ تَاوِیْلُہٗ کَذَا وَکَذَا۔ ‘‘(الیواقیت والجواہر از عبدالوہاب الشعرانیؓ جلد۱ صفحہ ۱۱۵) تم (اگر ) خداتعالیٰ کو جو کسی صورت میں مقیّد نہیں ہوتا خواب میں دیکھو تو تعبیر بتانے والا تم سے کہے گا کہ جو کچھ تم نے دیکھا صحیح ہے لیکن اس کی تعبیر یہ یہ ہے۔

۵۔خواب میں واقعہ متمثل کس طرح ہوسکتا ہے۔اس کے لئے دیکھو مندرجہ ذیل عبارات :۔

تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۴۰ پر حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کے حالات میں ایک واقعہ درج ہے کہ ’’آپ کا ہمسایہ شمعون نامی آتش پرست تھا ۔حضرت حسن ؒنے سنا کہ وہ سخت بیمار ہے اور قریب المرگ ہے۔ آپ نے اسے تبلیغ کی۔ اور وہ اس شرط پر مسلمان ہوا کہ حضرت حسنؒ اسے جنت کا پروانہ لکھ دیں۔ اس پر اپنے اور اپنے بزرگانِ بصریٰ کے دستخط ثبت کر کے شمعون کی قبر میں (جب وہ مر جائے)اس کے ہاتھ میں دے دیں ۔تا کہ اگلے جہان میں گواہ رہے۔ چنانچہ حسنؒ نے ایسا ہی کیا۔ مگر بعد میں خیال آیا کہ میں نے یہ کیا کیا ؟اس کو جنت کا پروانہ کیونکر لکھ دیا ۔لکھا ہے کہ:۔اسی خیال میں سو گئے۔شمعون کو دیکھا کہ شمع کی طرح تاج سر پر اور مکلف لباس بدن میں پہنے ہوئے بہشت کے باغوں میں ٹہل رہا ہے……اس نے حضرت حسن ؒ سے کہا ۔حق تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اپنے محل میں اتارا ہے اور اپنے کرم سے اپنا دیدار دکھایا……اب آپ کے ذمہ کچھ بوجھ نہیں رہا ۔اور آپ سبکدوش ہوگئے۔ لیجیئے یہ اپنا اقرار نامہ کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں ۔جب حضرت حسن ؒ خواب سے بیدار ہوئے تو خط آپ کے ہاتھ میں تھا۔‘‘ (انوارالازکیاء ترجمہ اردو تذکرۃالاولیا ء صفحہ ۴۰ ذکر الحسن بصریؒ)

۶۔قَالَ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ الْجَلَاءِ دَخَلْتُ مَدِیْنَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَبِیْ فَاقَۃٌ فَتَقَدَّمْتُ اِلٰی قَبْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ وَ عَلٰی صَاحِبَیْہِ ثُمَّ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ بِیْ فَاقَۃٌ وَاَنَا ضَیْفُکَ ثُمَّ تَنَحَّیْتُ وَ نِمْتُ دُوْنَ الْقَبْرِ فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَآءَ اِلَیَّ فَقُمْتُ فَدَفَعَ اِلَیَّ رَغِیْفًا فَاَکَلْتُ بَعْضَہٗ وَانْتَبَھْتُ وَفِیْ یَدِیْ بَعْضُ الرَّغِیْفِ۔ ‘‘ (منتخب الکلام فی تعبیر الاحلام مؤلفہ سیرین و قشیر یہ مصری صفحہ ۱۰۰)

اس عبارت کا ترجمہ شیخ فریدالدین عطار ؒ کے الفاظ میں یہ ہے:۔

’’حضرت عبداﷲ بن جلاء فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مدینۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں گیا۔اور مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر پر میں گیا۔ اور حضور ؐ اور حضور ؐ کے دونوں ساتھیوں کو السلام علیکم کہا اور عرض کیا کہ حضرت میں بھوکا ہوں ۔اور آپ ہی کا مہمان ہوں۔ یہ کہہ کر میں قبر سے پرے ہٹ کر سو گیا ۔خواب میں کیا دیکھتا ہوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم میری طرف تشریف لائے ہیں ۔میں (بغرض تعظیم کھڑا ہوگیا) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے ایک نان دیا۔ میں نے اس میں سے آدھا کھا لیا جب بیدار ہوا تو نان کا باقی حصّہ میرے ہاتھ میں تھا۔‘‘

(تذکرۃالاولیاء ذکر عبداﷲبن جلاء صفحہ ۴۹۸،مصنّفہ شیخ فریدالدین عطار ؒ)

۷۔ حضرت سیّد اسمٰعیل شہید رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ میں لکھا ہے کہ :۔

’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم درمنام دیدندوآنجناب سہ خرمابدستِ مبارک خود ایشاں را خورانیدند و در نفسِ خود ذائقہ ازاں رؤیائے حقہ ظاہر و باہر یا فتند ‘‘(صراط مستقیم مترجم صفحہ ۱۷۶از سید اسمٰعیل شہیدؒ)

کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ تین کھجوریں ایک ایک کر کے کھا رہے ہیں ……جب بیدار ہوئے تو واقعی منہ میں ذائقہ موجود تھا۔
۸۔حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ کا ایک کشف ملاحظہ ہو۔

’’فَرَأَی بَیْنَ النَّوْمِ وَالْیَقْظَۃِ اِنَّ الْغَوْثَ قَدْ جَآءَ وَبِیَدِہٖ تَاجٌ اَحْمَرُ وَ عَمَامَۃٌ خَضْرَاءُ فَاسْتَقْبَلَ الشَّیْخُ اَحْمَدُ حَضْرَۃَ الْغَوْثِ فَدَنَا اِلَیْہِ فَوَضَعَ التَّاجَ الْاَحْمَرَعَلٰی رَأْسِہٖ وَلَفَّ عَلَیْہِ الْعَمَامَۃَ الْخَضْرَاءَ بِیَدِہِ الْمُبَارَکَۃِ فَقَالَ یَا وَلَدِیْ اَحْمَدُ اَنْتَ مِنْ رِّجْالِ اللّٰہِ وَغَابَ عَنْ نَظْرِہٖ فَاسْتَیْقَظَ الشَّیْخُ اَحْمَدُ فَوَجَدَ التَّاجَ وَالْعَمَامَۃَ عَلٰی رَأْسِہٖ فَشَکَرَاللّٰہَ تَعَالٰی۔ ‘‘
(مناقب تاج الاولیا ء وبرہان الاصفیا ء مطبوعہ مصر مصنفہ علامہ عبدالقادر الاربلی صفحہ ۴۱)

ترجمہ :۔حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں دیکھا کہ حضرت غوث الا عظم سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے ہاتھ میں سُرخ تاج اور سبزعمامہ پکڑے ہوئے تشریف لائے۔پس داتا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کمال ادب سے حضرت غوث الاعظمؒ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ حضرت غوث الا عظمؒنے داتا صاحب کو اپنے پاس بلایا۔تو داتا صاحبؒ حضرت غوث الا عظمؒ کے قریب گئے ۔پس حضرت غوث الا عظمؒ نے وہ سُرخ تاج حضرت داتا گنج بخش کے سر پر رکھ دیااوراس کے اوپر سبز عمامہ اپنے دستِ مبارک سے لپیٹ دیا۔اور فرمایا اے میرے بیٹے احمد! تو اﷲتعا لیٰ کے بندوں میں سے ہے۔یہ کہہ کر حضرت غوث الا عظمؒ غائب ہوگئے۔ پس داتا گنج بخش صاحب بیدار ہوگئے ۔تو تاج اورعمامہ اپنے سر پر پایااور اﷲ کا شکر ادا کیا ۔

غیراحمدی معترض جو کشف میں سرخ چھینٹوں پر اعتراض کیا کرتا ہے کہ وہ کا غذکس کارخانے کا بنا ہوا تھا۔سیاہی اور قلم کہا ں کے بنے ہوئے تھے؟ وہ ذرا یہ بھی بتا دے کہ وہ عمامہ کس کارخانے کے بُنے ہوئے کپڑے کا تھا اور تاج کی ساخت کیا تھی ؟

۹۔حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اولیاء کی وحی کے طریقے مختلف ہیں۔ کبھی وہ خیا ل میں پاتے ہیں اور کبھی وہ حس میں دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے دل میں پاتے ہیں اور کبھی لکھی ہوئی عبارت پاتے ہیں اور یہ اکسر اولیا کو واقع ہوتا ہے ۔اور ابو عبداﷲ قضیب البان اور تقی ابن مخلد شاگرد امام احمد رضی اﷲ عنہ کو کتابت کے ذریعہ سے مَلَک الالہام کی زبان سے وحی آتی تھی اور جب وہ خواب سے بیدار ہوتے تھے تو ایک کاغذپر کچھ لکھا ہوا پاتے تھے…… میں نے خود اس کتابت کو دیکھا ہے۔ وہ ایک فقیر پر مطاف میں اسی صفت پر اترا تھا۔ اس میں دوزخ سے اس کی نجات لکھی ہوئی تھی۔ جب عام لوگوں نے اسے دیکھا تو سبھوں نے یقین کیا کہ وہ مخلوق کی کتابت نہیں ہے…… یہی واقعہ ایک عورت فقیرہ پر ہوا جو میرے شاگردوں میں سے تھی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ حق تعالیٰ نے اس کو ایک ورق دیا۔ جب وہ بیدار ہوئی تو اس کا ہاتھ بند ہوگیا اور اسے کوئی کھول نہ سکا۔مجھے الہام ہوا کہ میں اس کو یہ کہوں کہ جب تیرا ہاتھ کھلے تو فوراً اس کو نگل جائے۔پھر ا س نے یہ نیّت کر کے ہاتھ کو منہ کہ پاس لے گئی ۔پھر فوراً اس کا ہاتھ کھل گیا اور وہ فوراً نگل گئی۔لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے اسے کیونکر جانا میں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر الہام کیا کہ کوئی شخص اس کو نہ پڑھے۔‘‘ (فتوحات مکّیہ باب۲۸۵ بحوالہ ترجمہ اردو فصوص الحکم تذکرہ شیخ اکبر ابن عربی صفحہ ۲۲)

۱۰۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف سے مندرجہ ذیل باتیں مدّنظر تھیں۔اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت سے قلم کے ساتھ زیادہ سیاہی لگا کر اس کو چھڑکا:۔

(الف)خدا نیست سے ہست کر سکتا ہے اور آریوں کا عقیدہ غلط ہے کہ خدا نیست سے ہست نہیں کر سکتا۔بلکہ مادہ ہیسے کوئی چیز بنا سکتا ہے۔
(ب)سرخی کے چھینٹے لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی کے طور پر تھے۔
(ج)دستخط کرانے سے مراد یہ تھی کہ خداتعالیٰ نے لیکھرام کے قتل کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

۱۱۔حدیث شریف میں ہے :۔’’خَلَقَ اللّٰہُ ثَلَاثَۃَ اَشْیَآءَ بِیَدِہٖ خَلَقَ اٰدَمَ بِیَدِہٖ وَکَتَبَ التَّوْرٰۃَ بِیَدِہٖ وَ غَرَسَ الْفِرْدَوْسَ بِیَدِہ۔ٖ ‘‘ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ ۱۰۰) کہ خدا تعالیٰ نے تین چیزیں خاص اپنے ہاتھ سے بنائیں۔ حضرت آدم ؑ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔تو رات کو اپنے ہاتھ سے لکھا اور فردوس کو اپنے ہاتھ سے بویا۔

اب تم جس قدر اعتراض سرخی کے چھینٹوں والے کشف پر کرتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے کاغذ پر لکھا بھی کرتا ہے؟ وہ کاغذ کس کارخانے کا بنا ہوا تھا؟سیاہی کس کارخانے کی تھی؟قلم کیسا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔یہ سب اعتراضات کَتَبَ التَّوْرٰۃَ بِیَدِہٖ پر بھی پڑسکتے ہیں۔ مَا ھُوَ جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔

۱۲۔ حضرت عبداﷲ سنوری ؓ جو موقع کا گواہ تھا، نے حلفی بیان دیا کہ اس وقت کوئی ایسی صورت نہ تھی کہ سرخی کہیں سے آسکتی بلکہ میں نے خود سیاہی حضرت اقدسؑ کے کُرتے پر گرتی دیکھی۔

(مفہوم از الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۱۶ ء جلد ۴ صفحہ ۲۴)
 
Top Bottom