اعتراض:حضرت مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ میاں منظور صاحب کے گھر بیٹا ہوگا جس کا نام بشیر الدولہ اورعالم کباب وغیرہ ہوگا۔ تذکرہ ایڈیشن سوم صفحہ۵۹۸

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
۵۔منظور محمد صاحب کے ہاں بیٹا

اعتراض:حضرت مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ میاں منظور صاحب کے گھر بیٹا ہوگا جس کا نام بشیر الدولہ اورعالم کباب وغیرہ ہوگا۔ (تذکرہ ایڈیشن سوم صفحہ۵۹۸ و صفحہ ۶۲۶)

جواب: حضرت اقدس ؑ کے اصل الفاظ درج کئے جاتے ہیں:۔

’’۱۹فروری ۱۹۰۶ء کو رؤیا دیکھا کہ منظور محمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے او ر دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے۔ تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا۔ ’’بشیر الدولہ‘‘ فرمایا کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے۔ معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔‘‘

(بدر جلد۲نمبر ۸مورخہ ۲۳فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ و مکاشفات صفحہ۴۹ از حضرت مسیح موعودؑ و تذکرہ صفحہ۵۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

پس حضرت اقدس ؑ نے صاف فرمادیا ہے کہ منظور محمد کی تعیین نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ الہاماً یہ تعیین کی گئی۔ اور حضرت اقدس ؑ نے ضروری قرار نہیں دیا کہ منظور محمد سے مراد میاں منظور محمد صاحب ہی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ خواب ہے اور خواب میں نام صفات کے لحاظ سے بتائے جاتے ہیں۔ پس منظور محمد سے وہ شخص مراد ہے جو محمد عربی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا سب سے زیادہ منظور نظر اور محبوب ہے۔ ہاں ہاں جس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’اِسْمُہٗ اِسْمِیْ‘‘(اقتراب الساعۃ صفحہ ۶۱ مطبوعہ نول کشور مطبع مفید عام الکائنہ فی الرواۃ) کا ارشاد فرمایا۔وہی جس کو آپ نے اپنا سلام دیا۔ پس وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے خادم حضرت مسیح موعود ؑ ہی ہیں جنہوں نے فرمایا وَمَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی، فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَا رَاٰی۔(خطبہ الہامیہ۔روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۵۹)

پس اﷲ تعالیٰ نے اس رؤیا کے ذریعے یہ خبر دی تھی کہ وہ ’’کلمۃ اﷲ‘‘ اور سلسلہ احمدیہ کی اقبال مندی کا نشان عنقریب اپنی عظیم الشان صفات کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہونے والا ہے اور اس کی وہ موعودہ صفات جو ۱۹۰۶ء تک دنیا کی نظر سے مخفی تھیں اب ان کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے۔ چنانچہ ۱۹۰۶ء ہی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز اپنے سنِّ بلوغ کو پہنچے۔ اور آپ نے رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جاری فرمایا۔ جس کی خوبیوں کا اعتراف مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو بھی کرنا پڑا۔ ۱۹۱۴ء میں ۲۵سال کی عمر میں آپ خلیفۃ المسیح ہوئے۔ اور اسی سال زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی جنگ عظیم کی صورت میں پوری ہوئی۔(تذکرہ ایڈیشن سوم صفحہ ۵۹۹)

ایک اور ثبوت

پھر حضرت اقدس ؑ کے اس صریح ارشاد کے علاوہ کہ ’’معلوم نہیں منظور محمد کے لفظ سے کس طرف اشارہ ہے۔‘‘(تذکرہ صفحہ۵۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) بعض اور بھی قرائن ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’عالم کباب‘‘ (ایضاً صفحہ۵۳۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) لڑکے سے مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز ہی ہیں نہ کوئی اور۔

۱۔’’عالم کباب‘‘ لڑکے کے مندرجہ ذیل نام اور صفات بیان کی گئی ہیں:۔

۱۔ کلمۃ اﷲ۔ کلمۃ العزیز
۲۔ بشیر الدولہ
۳۔ ناصر الدین۔ فاتح الدین۔ شادی خاں
۴۔ ھٰذَا یَوْم ٌ مُبَارَکٌ (تذکرہ ۵۳۷مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کی تشریح بھی فرمائی ہے:۔

(۱)’’بشیر الدولہ سے یہ مراد ہے کہ وہ ہماری دولت اور اقبال کے لییبشارت دینے والا ہوگا۔ اس کے پیدا ہونے کے بعد (یا اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد ) ’’زلزلہ عظیمہ‘‘ کی پیشگوئی اور دوسری پیشگوئیاں ظہور میں آئیں گی اور گروہ کثیر مخلوقات کا ہماری طرف رجوع کرے گا اور عظیم الشان فتح ظہور میں آئے گی۔‘‘ (تذکرہصفحہ ۵۳۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

(۲)’’عالم کباب‘‘ سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی برائی بھلائی شناخت کرے۔ دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی……اس و جہ سے اس لڑکے کا نام عالم کباب رکھا گیا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ ۵۳۴ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

غرضیکہ ’’عالم کباب‘‘ کی صفت بشیر الدولہ اور ناصر الدین او رکلمۃؔاﷲ اور فاتح الدینؔ سے سلسلہ کی ترقی کی بشارت ہے۔ اب دیکھئے بعینہٖ یہی صفات اور نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ مصلح موعود کے ہیں۔ملاحظہ ہو :۔

۱۔ وہ ’’کلمۃ اﷲ‘‘ ہے۔ (اشتہار ۲۰فروری ۱۸۸۶ء و تذکرہ صفحہ ۱۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
۲۔ ’’بشیر الدین‘‘
۳۔ ’’وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا……وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کا رستگاری کا موجب ہوگااو ر زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔‘‘ (تذکرہ صفحہ۱۱۰،۱۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
۴۔ ’’فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ ۱۰۹ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

اب دیکھ لیجئے کہ بشیر الدولہ کے بالمقابل ’’بشیر الدین‘‘’’ کلمۃ اﷲ‘‘ اور’’ کلمۃ العزیز‘‘ کے بالمقابل ’’کلمۃ اﷲ‘‘ مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی کے نام ہیں، جماعت کی ترقی کے متعلق بعینہٖ ایک ہی قسم کے الفاظ دونوں کے متعلق ہیں۔ ’’عالم کباب‘‘ کا نام ’’فاتح الدین‘‘ ہے تو مصلح موعود کو ’’فتح‘‘ کی کلید قرار دیا گیا ہے۔ اگر ’’عالم کباب‘‘ کی آمد کو ’’ہٰذَا یَوْمٌ مُبَارَکٌ‘‘ کہا ہے تو مصلح موعود کی بشارت میں دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ‘‘ (تذکرہ صفحہ۱۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء) فرمایا ہے اور اگر ’’عالم کباب‘‘ کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ وہ مخالفین و معاندین کے لیے عذاب الٰہی کا موجب ہوگا نیز فرمایا کہ وہ لڑکا نیکوں کے لیے اور اس سلسلہ کے لیے ایک سعد ستارہ کی طرح مگر بدوں کے لیے اس کے برخلاف ہوگا۔

(الحکم ۱۰؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ۱۔ البدر ۱۴؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ۲)

تو بعینہٖ اسی طرح مصلح موعود کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجاوے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے…… اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے……جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔‘‘

(اشتہار ۲۰فروری ۱۸۸۶ء۔ و تذکرہ صفحہ۱۰۹ تا۱۱۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء )

غرضیکہ دونوں کے نام اور صفات ایک ہی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ یہ دونوں پیشگوئیاں ایک ہی وجود کے متعلق ہیں۔

ٰٓایک اعتراض

بعض لوگ ریویوؔ اور بدرؔ کے حوالہ سے ایک ڈائری پیش کیا کرتے ہیں کہ گویا حضرت اقدس علیہ السلام نے الہاماً منظور محمد کی تعیین فرمادی ہے اور اپنے قلم سے لکھا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ وہ لڑکا میاں منظور محمد صاحب کے ہاں ان کی بیوی محمدی بیگم کے پیٹ سے پیداہوگا۔

جواب:۔محمدیہ پاکٹ کے بک مصنف کا یہ لکھنا کہ ڈائری محولہ از ریویوؔ جون ۱۹۰۶ء حضرت اقدس ؑ کے قلم سے لکھی گئی۔ (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ۳۲تا۳۷) محض جہالت ہے۔ وہ حضرت صاحب ؑ کی تحریر نہیں۔بلکہ ڈائری نویس نے محض اپنی یادداشت کی بناء پر تحریر کرکے طبع کرائی ہے۔وہ ڈائری کی مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر قابل قبول نہیں۔

۱۔وہ ڈائری حضرت اقدس ؑ کی تصریح مندرجہ بدر جلد۲نمبر۸ و مکاشفات از محمد منظور الٰہی جنجوعہ احمدی جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۹ و ریویو مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۲۲ و الحکم جلد ۱۰ نمبر ۷۔ ۲۴فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۱کالم نمبر ۴ کے خلا ف ہے۔جس کا حوالہ اوپر درج ہوچکا ہے کہ ’’معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
۲۔حضرت اقدس ؑ کی دوسری ڈائریوں سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ مخالفین کی محولہ ڈائری (ریویو جلد ۵ نمبر۶ صفحہ ۲۴۳، ۲۴۴ جون ۱۹۰۶ نیز بدر جلد ۲نمبر ۲۴۔۱۴جون ۱۹۰۶ء صفحہ۲) محض ڈائری نویس کی غلطی کا نتیجہ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:۔
’’بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوا ہے کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں یعنی محمد ی بیگم کا ایک لڑکا ہوگا۔‘‘
حالانکہ الحکم جلد ۱۰نمبر ۲۰پرچہ ۱۰جون۱۹۰۶ء صفحہ ۱کالم نمبر ۲میں جو حضرت اقدس علیہ السلام کے الفاظ لکھے ہیں وہ یہ ہیں:۔
’’یہ ہر دو نام بذریعہ الہام الٰہی معلوم ہوئے۔‘‘
اسی طرح الحکم جلد ۱۰نمبر ۲۲۔ ۲۴جون ۱۹۰۶ء صفحہ۱ کالم نمبرا۔ و بدر جلد ۲ نمبر ۲۵۔۲۱ جون ۱۹۰۶ ء صفحہ ۳ پر لکھا ہے:۔
’’میاں منظور محمد کے اس بیٹے کے نام جو بطور نشان ہوگا بذریعہ الہام الٰہی مفصلہ ذیل معلوم ہوئے ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ دراصل الہام الٰہی سے صرف اس لڑکے کے نام ہی معلوم ہوئے تھے ،یہ امر کہ وہ لڑکا منظور محمد کے گھر ان کی بیوی محمدی بیگم کے پیٹ سے پیدا ہوگا،یہ تعیین الہامی نہیں ہے (ڈائری نویس نے اس فرق کو نہ سمجھنے کے باعث بجائے یہ لکھنے کے کہ ’’میاں منظور محمد صاحب کے گھر جو لڑکا پیدا ہوگا بذریعہ الہام معلوم ہوا کہ اس کے دو نام ہوں گے۔‘‘ لفظ’’الہام الٰہی‘‘کو فقرہ کے شروع میں رکھ دیا ہے جس سے مضمون بگڑ کر وہ مفہوم بن گیا ہے جو حضرت اقدس کے دوسرے ملفوظات اور واقعات کے صریحاً خلاف ہے۔ پس دوسری ڈائریوں سے ریویو والی ڈائری (جس کا مخالف نے حوالہ دیا ہے)مردود ثابت ہوئی۔اس سے جماعت احمدیہ کے خلاف حجت نہیں پکڑی جاسکتی کیونکہ وہ حضرت اقدس کی تحریر نہیں بلکہ حاضرین مجلس میں سے کسی کی اپنی یادداشت کی بناء پر لکھی ہوئی تحریر ہے جس میں غلط فہمی یا الفاظ کا ادھر ادھر ہوجانا کوئی مشکل امر نہیں۔

حقیقۃ الوحی کا حوالہ

حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا ہے کہ اس لڑکے کا پیدا ہونا معرض التواء میں پڑگیا۔ کیونکہ حضورؑ نے دعا فرمائی تھی کہ ’’رَبِّ اَخِّرْوَقْتَ ھٰذَا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۳)اے اﷲ ! زلزلہ میں تاخیر ڈال دے اور اﷲ تعالیٰ نے حضور ؑ کو بتادیا کہ ’’ اخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُسَمّٰی۔‘‘(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۳)کہ اﷲ تعالیٰ نے زلزلہ کو کسی اور وقت پر ٹال دیا۔

حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۰۳ کے حوالہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ زلزلہ اسی وقت ظاہر ہوگا جبکہ ’’عالم کباب‘ ‘ظاہر ہوجائے گا۔

۱۔باقی رہا تمہارا یہ کہنا کہ ’’منظور محمد‘ ‘اور ’’محمدی بیگم‘‘ کا لفظ موجود ہے۔ پھر ان سے کوئی دوسرا کیونکر مراد ہوسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال علم دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تمام دنیا کے خزانوں کی کنجیاں وُضِعَتْ فِیْ یَدَیَّ (بخاری کتاب الرؤیا وا لتعبیر باب المفاتیح فی الید)

کہ وہ چابیاں میرے ہاتھ میں رکھی گئیں۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں حاصل نہیں ہوئیں۔ بلکہ حضورؐ کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ کے زمانۂ خلافت میں یہ ملک فتح ہوئے۔ پس اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مراد حضرت عمر ؓ ہوسکتے ہیں تو منظور محمد سے مراد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کیوں نہیں ہوسکتے؟ جو حقیقی اور اصلی منظورِ محمد ؐ ہیں۔

۲۔پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب میں اگر چاند سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ اور سورج سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام اور ستاروں سے مراد بھائی ہوسکتے ہیں حالانکہ صریح لفظچاند سورج اور ستاروں کا موجود ہے تو پھر اس خواب میں منظور محمد کی تعبیر کیوں نہیں ہوسکتی؟

۳۔اسی طرح لکھا ہے:۔ قَالَ السُّھَیْلِیُّ قَالَ اَھْلُ التَّعْبِیْرِ رَأَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْمَنَامِ اُسَیْدَ بْنَ اَبِی الْعَیْصِ وَالِیًا عَلٰی مَکَّۃَ مُسْلِمًا فَمَاتَ عَلَی الْکُفْرِ وَ کَانَتِ الرُّؤْیَا لِوَلَدِہٖ عَتَّابٍ حِیْنَ اَسْلَمَ فَوَلَّاہٗ۔

(تاریخ الخمیس مصنفہ علامہ شیخ حسین بن محمد ابن الحسن الدیار بکری جلد ۲صفحہ ۱۱۱پہلا ایڈیشن مطبوعہ ۱۳۰۲ھ)

یعنی سہیلی کہتے ہیں کہ اہل تعبیر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص اسید بن ابی العیص کو خواب میں دیکھا کہ وہ مسلمان ہوگیا اور مکہ شریف کا گورنر بناہوا ہے، لیکن اسیدؔ مذکور بغیر مسلمان ہوئے مرگیا لیکن یہ خواب اس کے بیٹے عتابؔ کے حق میں نکلی۔ پس اگر اسیدؔ کافر سے مراد عتابؔ مسلمان بھی ہوسکتا ہے تو ایک مومن کی جگہ دوسرا اس سے اعلیٰ مومن کیوں نہیں ہوسکتا؟

انبیاء کی ذمہ واری

قرآن مجید اور احادیث نبویؐ اور اقوال آئمہ سلف سے یہ بات پایۂ ثبو ت کو پہنچتی ہے۔ اور انبیاء اور خدا تعالیٰ کے مامورین صرف اور صرف اس چیز کی صحت کے لیے جواب دہ ہوتے ہیں کہ جو ان کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتی ہے۔ وہ اپنے اجتہاد کے ذمہ وار نہیں ہوتے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:۔

’’مَا حَدَّثْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ فَھُوَ حَقٌّ وَمَا قُلْتُ فِیْہِ مِنْ قِبَلِ نَفْسِیْ۔‘‘ (ترمذی۔ ابواب الصلوٰۃ۔ باب ماجاء فی وصف الصلوٰۃ) فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اُخْطِیُٔ وَ اُصِیْبُ (نبراس شرح الشرح العقائد النسفی صفحہ۲۹۲) یعنی جو بات میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کہوں وہ حق ہے۔ مگر جو اس کی تشریح میں اپنی طرف سے کروں اس کے متعلق یاد رکھو کہ میں انسان ہوں کبھی میرا خیال درست ہوگا اور کبھی نادرست۔

اسی طرح لکھا ہے :۔ ’’اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ یَجْتَھِدُ فَیَکُوْنُ خَطَاءً(نبراس شرح الشرح عقائد النسفی صفحہ ۲۹۲) کہ آنحضرت صلعم کئی دفعہ اپنی وحی کی تعبیر یا تشریح اپنی طرف سے فرماتے تھے تو بعض دفعہ غلط بھی ہوتی تھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ انبیاء اورملہمین صرف وحی کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں اپنے اجتہاد کے کذب اور خلاف واقعہ نکلنے سے وہ ماخوذ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ان کی اپنی رائے ہے نہ خدا کا کلام۔‘‘

(اعجاز احمدی۔روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۱۱۵)

پس جبکہ واقعات اور حضرت اقدس ؑ کے دوسرے اقوال سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز ہیں اور حضور کی سوا کسی شخص کے لیے یہ پیشگوئی نہ تھی۔ تو پھر بھی ایک ڈائری کو (جس کی صحت اور محفوظیت مسلّم نہیں) پیش کرکے اعتراض کرتے جانا طریق انصاف نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اگر کسی خاص پہلو پر پیشگوئی کا ظہور نہ ہو اور کسی دوسرے پہلو پر ظاہر ہو جائے اور اصل امر جو اس پیشگوئی کا خارق عادت ہونا ہے وہ دوسرے پہلو میں بھی پایا جائے۔ اور واقعہ کے ظہور کے بعد ہر ایک عقلمند کو سمجھ آجائے کہ یہی صحیح معنے پیشگوئی کے ہیں جو واقعہ نے اپنے ظہور سے آپ کھول دیئے ہیں تو اس پیشگوئی کی عظمت اور وقعت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا۔ اور اس پر ناحق نکتہ چینی کرنا شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔ ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۲۵۰)

ولادت معنوی

بعض مخالف کہا کرتے ہیں کہ ۱۹۰۶ء میں جب یہ پیشگوئی حضرت صاحب نے کی اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی پیدا ہوچکے تھے۔

الجواب:۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ الہام میں ’’ولادت‘‘ سے ولادتِ جسمانی مراد نہیں بلکہ ولادتِ معنوی مراد ہے۔ جیسا کہ امام الشیخ سہروردی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔

یَصِیْرُ الْمُرِیْدُ جُزْءَ الشَّیْخِ کَمَا اَنَّ الْوَلَدَ جُزْءُ الْوَالِدِ فِی الْوَلَادَۃِ الطَّبْعِیَّۃِ وَ تَصِیْرُ ھٰذِہِ الْوَلَادَۃُ اَنِفًا وَلَادَۃً مَعْنَوِیَّۃً کَمَا وَرَدَ عَنْ عِیْسٰی صَلٰوۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ’’لَنْ یَّلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمَآءِ مَنْ لَّمْ یُوْلَدْ مَرَّتَیْنِ فَبِالْوَلَادَۃِ الْاُوْلٰی یَصِیْرُلَہٗ اِرْتِبَاطٌ بِعَالَمِ الْمَلَکِ وَ بِھٰذِہِ الْوَلَادَۃِ یَصِیْرُ لَہٗ اِرْتِبَاطٌ بِالْمَلَکُوْتِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَ کَذٰلِکَ نُرِیْ اِبْرَاھِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ‘‘ وَ صَرْفُ الْیَقِیْنِ الْکَمَالِ یَحْصِلُ فِیْ ھٰذِہِ الْوَلَادَۃِ۔ وَبِھٰذِہِ الْوَلَادَۃِ یَسْتَحِقُّ مِیْرَاثُ الْاَنْبِیَآءِ مَا وُلِدَ۔‘‘

(عوارف المعارف جلد ۱ صفحہ ۴۵ مطبوعہ الوہبیۃ البہیہ قاہرہ مصر شعبان ۱۲۹۲ھ)

یعنی مرید اپنے پیر کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے جس طرح بیٹا اپنے باپ کا ولادتِ طبعی میں۔ مرید کا یہ پیدا ہونا حقیقی پیدا ہونا نہیں بلکہ معنوی او ر استعاری طور پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ کوئی شخص خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ وہ دو دفعہ پیدا نہ ہو۔ ولادتِ طبعی (حقیقی) میں انسان کا تعلق دنیا سے ہوتا ہے۔ مگر ولادتِ معنوی میں اس کا تعلق آسمان (ملکوت اعلیٰ ) سے ہوتا ہے۔ یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ ہم نے اسی طرح ابراہیم کو ملکوت سماوی و ارضی دکھائیں تاکہ وہ یقین کرے۔ دراصل حقیقی اور کامل یقین اسی ولادتِ معنوی سے ہی حاصل ہوتا ہے اور اسی ولادت کے باعث انسان وراثتِ انبیاء کا مستحق ہوجاتا ہے اور جس شخص کو وراثت انبیاء نہ ملی وہ پیدا نہ ہوا۔‘‘

پس اس پیشگوئی میں بھی ’’ولادت‘‘ سے مرادطبعی ولادت نہیں ، بلکہ ولادتِ معنوی ہے۔ جو انسان کو انبیاء کا وارث بناتی ہے۔ سو یہ عجیب بات ہے کہ۱۹۰۶ء میں ہی حضرت اقدس علیہ السلام نے اس لڑکے کی پیدائش معنوی کی پیشگوئی فرمائی۔ ۱۹۰۶ء ہیمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ نے رسالہ تشحیذ الاذہان جاری فرمایا جس سے حضور کے کمالاتِ دینیہ و روحانیہ کا اظہار شروع ہوا اور ’’سلطان القلم‘‘ کی وراثت حقیقی کا تمغہ آپ کو ملا۔

پھر۱۹۱۴ء میں حضور ایدہ اﷲ اپنے معنوی بلوغ کو پہنچ کر اور سریر آرائے خلافت ہوکر کامل اورمکمل طور پر ’’عالم کبا ب‘‘ کا مصداق ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔
 
Top Bottom