ابطالِ تثلیث
۱۔ تثلیث کا عقیدہ مسیح سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا اور نہ خود مسیح نے مشرح ذکر کیا۔اگر مسیح کو معلوم تھا کہ یہود نے انہیں سُولی دے دینا ہے تو انہوں نے اپنا عقیدہ کیوں نہ ظاہر کیا؟
۲۔ تین ایک اور ایک تین۔یہ آپس میں ضدّین ہیں۔اگر مان لیا جاوے کہ ایک تین ہیں اور تین ایک ہے تو تقسیم الشیء الٰی نفسہٖ لازم آتی ہے۔اور وہ محال ہے۔کیونکہ ایک کی تقسیم الٰی اجزاۂٖ تو ہو سکتی ہے مگر الٰی نفسہٖ نہیں ہو سکتی۔
۳۔ تین اقانیم۔اگر تینوں کامل ہیں تو ایک ہی کافی ہے تین کی ضرورت نہیں۔اگر ناقص ہیں تو مجموعہ بھی ناقص ہوگا۔
۴۔ ’’حقیقی اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔‘‘ (یوحنا ۳/۱۷ )
۵۔ ’’خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔‘‘ (مرقس ۱۲/۳۰)
۶۔ ’’خداوند ایک خدا سے محبت رکھ۔‘‘ (متی ۲۲/۳۷)
۷۔ ’’خداوندوہی خداوند ہے۔ اُس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘ (استثنا۴/۳۵)
۸۔ ’’خداوند وہی خدا ہے کہ جو اوپر آسمان کے ہے۔‘‘ (استثنا ۴/۳۹)
۹۔ ’’خداوند وہی خدا ہے۔خدا ایک ہے‘‘۔ (استثنا ۶/۴)
۱۰۔ ’’میں ہی خداوند ہوں اور میرے سوا کوئی اور معبود نہیں۔اور نہ ہی میرے مشابہ ہے۔‘‘ ( یسعیاہ۵؍۴۵ و ۵؍۴۶ )
۱۱۔ علم میں مساوی نہیں۔ ( مرقس ۱۳/۳۲ )
۱۲۔ قدرت میں مساوی نہیں۔ (متی ۲۳۔۲۰/۲۹)
۱۳۔ تثلیث سے اﷲ تعالیٰ کے لیے ترکیب ماننی پڑتی ہے۔اور مرکب غیر کا محتاج ہوتا ہے۔ اس سے اس کا ممکن ہونا ثابت ہے جو اس کی عدم الوہیت کو ثابت کرتا ہے۔
۱۴۔ اقانیم ثلاثہ میں جو امتیاز ہے وہ یا تو صفتِ کمال ہوگی یا نہ ہوگی اگر صفتِ کمال ہے تو باقی دو اقنوم ناقص ہوئے۔ورنہ وہ ناقص ہوا۔
۱۵۔ انسانیت محدود ہے۔الوہیت بھی اس کے ساتھ مل کر محدود ہو جائے گی۔
۱۶۔ اگر الوہیتِ مسیح یا تثلیث درست ہو تو ہر ایک خدا کو مرکب فی الجزئین یعنی مابہ الاشتراک اور مابہ الامتیاز ماننا پڑے گا۔اور مرکب خدا نہیں ہو سکتا۔
۱۷۔ اگر مسیح واقعی خدا اور ابن اور اقنوم ثالث تھے اور ان کے حق میں بائیبل میں پیشگوئیاں ہیں۔ تو بتاؤ یہود نے ان پیشگوئیوں کی کہاں تصدیق کی ہے؟کیونکہ وہ انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔ اگر کہو وہ تعصّب سے پیشگوئیوں کو نہیں مانتے تو یہ فضول سی بات ہے۔کیونکہ وہ متعصب تب ہوئے جب مسیح آچکے ۔ جب آئے بھی نہ تھے اس وقت تو وہ مانتے ہوں گے اس وقت کی تصدیق بتاؤ کہ وہ مسیح ابن خدا کی آمد کے منتظر ہیں۔
۱۔ تثلیث کا عقیدہ مسیح سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا اور نہ خود مسیح نے مشرح ذکر کیا۔اگر مسیح کو معلوم تھا کہ یہود نے انہیں سُولی دے دینا ہے تو انہوں نے اپنا عقیدہ کیوں نہ ظاہر کیا؟
۲۔ تین ایک اور ایک تین۔یہ آپس میں ضدّین ہیں۔اگر مان لیا جاوے کہ ایک تین ہیں اور تین ایک ہے تو تقسیم الشیء الٰی نفسہٖ لازم آتی ہے۔اور وہ محال ہے۔کیونکہ ایک کی تقسیم الٰی اجزاۂٖ تو ہو سکتی ہے مگر الٰی نفسہٖ نہیں ہو سکتی۔
۳۔ تین اقانیم۔اگر تینوں کامل ہیں تو ایک ہی کافی ہے تین کی ضرورت نہیں۔اگر ناقص ہیں تو مجموعہ بھی ناقص ہوگا۔
۴۔ ’’حقیقی اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔‘‘ (یوحنا ۳/۱۷ )
۵۔ ’’خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔‘‘ (مرقس ۱۲/۳۰)
۶۔ ’’خداوند ایک خدا سے محبت رکھ۔‘‘ (متی ۲۲/۳۷)
۷۔ ’’خداوندوہی خداوند ہے۔ اُس کے سوا کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘ (استثنا۴/۳۵)
۸۔ ’’خداوند وہی خدا ہے کہ جو اوپر آسمان کے ہے۔‘‘ (استثنا ۴/۳۹)
۹۔ ’’خداوند وہی خدا ہے۔خدا ایک ہے‘‘۔ (استثنا ۶/۴)
۱۰۔ ’’میں ہی خداوند ہوں اور میرے سوا کوئی اور معبود نہیں۔اور نہ ہی میرے مشابہ ہے۔‘‘ ( یسعیاہ۵؍۴۵ و ۵؍۴۶ )
۱۱۔ علم میں مساوی نہیں۔ ( مرقس ۱۳/۳۲ )
۱۲۔ قدرت میں مساوی نہیں۔ (متی ۲۳۔۲۰/۲۹)
۱۳۔ تثلیث سے اﷲ تعالیٰ کے لیے ترکیب ماننی پڑتی ہے۔اور مرکب غیر کا محتاج ہوتا ہے۔ اس سے اس کا ممکن ہونا ثابت ہے جو اس کی عدم الوہیت کو ثابت کرتا ہے۔
۱۴۔ اقانیم ثلاثہ میں جو امتیاز ہے وہ یا تو صفتِ کمال ہوگی یا نہ ہوگی اگر صفتِ کمال ہے تو باقی دو اقنوم ناقص ہوئے۔ورنہ وہ ناقص ہوا۔
۱۵۔ انسانیت محدود ہے۔الوہیت بھی اس کے ساتھ مل کر محدود ہو جائے گی۔
۱۶۔ اگر الوہیتِ مسیح یا تثلیث درست ہو تو ہر ایک خدا کو مرکب فی الجزئین یعنی مابہ الاشتراک اور مابہ الامتیاز ماننا پڑے گا۔اور مرکب خدا نہیں ہو سکتا۔
۱۷۔ اگر مسیح واقعی خدا اور ابن اور اقنوم ثالث تھے اور ان کے حق میں بائیبل میں پیشگوئیاں ہیں۔ تو بتاؤ یہود نے ان پیشگوئیوں کی کہاں تصدیق کی ہے؟کیونکہ وہ انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔ اگر کہو وہ تعصّب سے پیشگوئیوں کو نہیں مانتے تو یہ فضول سی بات ہے۔کیونکہ وہ متعصب تب ہوئے جب مسیح آچکے ۔ جب آئے بھی نہ تھے اس وقت تو وہ مانتے ہوں گے اس وقت کی تصدیق بتاؤ کہ وہ مسیح ابن خدا کی آمد کے منتظر ہیں۔