حربۂ تکفیر یعنی ایک دوسرے کو کافر کہنا

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
حربۂ تکفیر یعنی ایک دوسرے کو کافر کہنا

اسلامی فرقوں کے ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ تکفیر :۔

مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگے گا

(۱)فتوحات مکیہ جلد ۳ صفحہ ۳۷۴(۲)حجج الکرامہ صفحہ ۳۶۳(۳)مکتوبات امام ربانی جلد ۲ صفحہ۱۰۷مکتوب نمبر ۵۵(۴)اقتراب الساعۃ صفحہ ۹۵ وصفحہ ۲۲۴

مندرجہ بالا حوالجات کی اصل عبارات ملاحظہ فرمائیں پاکٹ بک ہذا صفحہ ۶۶۰تا صفحہ۶۶۱

(۱)شیعہ کافر ہیں :۔

اہل سنت کے بزرگان وعلماء نے بالاتفاق شیعوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے۔ ملاحظہ ہوں حوالجات ذیل:۔

۱۔دربار رسالت سے:۔

’’اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِیٍّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ اِنَّہٗ سَیَکُوْنُ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ…………یُقَالُ لَھُمُ الرَّافِضَۃُ فَاقْتُلْھُمْ قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ اِنَّھُمْ مُشْرِکُوْنَ۔

(رواہ الامام الہادی یحییٰ بن الحسین امام الیمن فی کتابہ الاحکام مسلسلا بآباۂٖ الکرام من عندہ الیٰ عند الحسن ابن علی ابن ابی طالب…… وھو الامام العظیم الذی صار علماً یقتدی بمذہبہ فی غالب الدیار الیمنیۃ۔ سراج الوہاج جلد ۲ صفحہ ۵۷۸ از صدیق بن حسن بن علی الحسینی القنوجی مطبع صدیق الکائن بھوپال)

یعنی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم ہوگی جس کو ’’رافضی‘‘کرکے پکارا جائے گا تم ان کو قتل کرو کیونکہ وہ مشرک ہیں۔

(۲)دربار غوث الاعظم سے :۔(الف)

’’عَلَیْھِمْ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ وَمَلَائِکَتَہٗ وَسَائِرُ خَلْقِہٖ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ……لِاَنَّھُمْ بَالَغُوْا فِیْ غُلُّوِّھِمْ وَمَرَدُوْا عَلَی الْکُفْرِ وَتَرَکُوا الْاِسْلَامَ وَفَارَقُوا الْاِیْمَانَ وَجَحَدُوا الْاِلٰہَ وَالرُّسُلَ وَالتَّنْزِیْلَ۔‘‘

(غنیۃ الطالبین۔ مصنفہ حضرت پیرانِ پیر غوث الاعظم جیلانی ؒ مع زبدۃ السالکین صفحہ ۲۲۰ مطبع مرتضوی دہلی)

اس عبارت کا ترجمہ ’’تحفہ دستگیر ترجمہ اردو غنیۃ الطالبین‘‘ سے نقل کیا جاتا ہے۔

ان پر خدا کی اور تمام فرشتوں کی اور سب لوگوں کی *** تا قیامت ہے خدا ان کا نام ونشان اس جہان سے مٹا ڈالے اور ان کی سبزیوں کو زمین سے دور کرے اور ان میں زمین پر پھرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے غلو میں بہت بڑھ گئے ہیں۔ کفر پر جم گئے ہیں۔ اسلام کو چھوڑ بیٹھے ہیں خدا وند کریم اور قرآن اور تمام پیغمبروں کو نہیں مانتے جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں خدا ان سے اپنی پنہ میں رکھے۔‘‘

(غنیۃ الطالبین مترجم اردو المعروف بہ تحفۂ دستگیر شائع کردہ ملک سراج الدین اینڈ سننر لاہور صفحہ ۱۳۱)

ب۔ پھر حضرت غوث الاعظم تحریر فرماتے ہیں:۔

’’رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب کو گالی نہ دو۔ پس جس شخص نے میرے اصحاب کو گالی دی اس پر خدا کی *** ہے…………اور آخر زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگا کہ وہ اصحابوں کے رتبہ کو کم کرے گا۔خبردار تم نے ہرگز ان کے ساتھ کھانا پینا نہیں۔ہرگز ان کے ساتھ نکاح کرنا کرانا نہیں اور ان کے ساتھ نماز بھی نہ پڑھنی اور ان پر نماز جنازہ بھی نہ پڑھنی۔‘‘

(غنیۃ الطالبین مترجم اردو صفحہ ۱۲۰بعنوان محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کی فضلیت اور بزرگی)

۳۔ امام ربّانی مجدد الف ثانی:۔ ’’بدترین جمیع مبتدعان جماعہ اند کہ باصحاب پیغمبر علیہ و علیہم الصلوٰۃ والسلام بغض دارند۔اﷲ تعالیٰ در قرآن مجید خود ایشاں را کفار می نامد۔ …… قرآن وشریعت لازم مے آید۔قرآن جمع حضرت عثمان ست علیہ الرضوان اگر عثمان مطعون ست۔ قرآن ہم مطعون است

اَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَمَّا یَعْتَقِدُ الزَّنَادِقَۃُ‘‘

(مکتوباتِ امام ربّانی جلد ۱مکتوب پنجاہ و چہارم) (ب)بدترین فرق شیعۂ شنیعہ وحوالہ مذکورہ بالا صفحہ ۲۷)

’’یعنی تمام بدعتیوں سے بدترین جماعت شیعوں کی ہے جو کہ اصحابِ پیغمبرعلیہ السلام سے بغض رکھتے ہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کا نام کافر رکھا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ (الفتح:۳۰) صحابہ قرآن وشریعت کی تبلیغ کرنے والے تھے۔ پس اگر صحابہ پر طعن کیا جائے تو قرآن وشریعت پر طعن لازم آتا ہے۔ قرآن مجید حضرت عثمان کا جمع کیا ہوا ہے پس اگر عثمان پر طعن کیا جائے تو قرآن پر طعن ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم کو ان زندیقوں کے عقائد سے بچائے رکھے۔آمین‘‘

(ب)تمام فرقوں سے بدترین فرقہ شیعہ شنیعہ ہے۔

(مکتوبات امام ربّانی جلد ۱دفتر اوّل حصہ دوم صفحہ ۲۷ مکتوب نمبر۵۴ مطبوعہ مجددی پریس امرتسر ۱۳۳۸ھ)

گویا صرف دربار رسالت ہی سے نہیں بلکہ دربار خداوند ی سے بھی شیعوں کی تکفیر کا فتویٰ بقول امام ربّانی مجدد الف ثانی صادر ہوچکا ہے۔

۴۔دربار عالمگیر رحمۃ اﷲ علیہ سے :۔فتاویٰ عالمگیری میں ہے:۔

’’اَلرَّافِضِیُّ اِذَا کَانَ یَسُبُّ الشَّیْخَیْنِ وَیَلْعَنُھُمَا وَالْعَیَاذُ بِاللّٰہِ فَھُوَکَافِرٌ……مَنْ اَنْکَرَ اِمَامَۃَ اَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ فَھُوَ کَافِرٌ……وَکَذَالِکَ مَنْ اَنْکَرَ خِلَافَۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ……ھٰؤُلَآءِ الْقَوْمُ خَارِجُوْنَ عَنْ مِلَّۃِ الْاِسْلَامِ وَاَحْکَامُھُمْ اَحْکَامُ الْمُرْتَدِّیْنَ کَذَا فِی الظَّھِیْرِیَّۃِ۔‘‘ (فتاویٰ عالمگیری مرتبہ بحکم شہنشاہ اورنگ زیب جلد ۲ صفحہ ۲۶۴)

یعنی رافضی جو کہ حضرت ابو بکر و عمرؓ کو گالی دے یا ان پر *** کرے وہ کافر ہے۔․․․․اور جو حضرت ابوبکرؓ کی امامت سے انکار کرے وہ بھی کافر ہے اسی طرح جو حضرت عمر ؓ کی خلافت کا منکر ہو وہ بھی کافر ہے۔․․․․یہ لوگ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور مرتد ہیں ان پر مرتدوں کے احکام نافذ ہوتے ہیں ایسا ہی’’ظہیریہ‘‘ میں لکھا ہوا ہے۔‘‘

نوٹ :۔ حضرت اورنگ زیب عالمگیر کے زمانۂ حکومت میں تمام اہل سنت والجماعت علماء نے متفقہ طور پر شیعوں کے کفر پر اجماع کرکے شیعوں کو مرتد اور کافر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور حکومت وقت سے ان کو ’’غیرمسلم اقلیت‘‘قرار دلوایا۔ مولوی کفایت حسین او ر وہ دوسرے سادہ لوح شیعہ جو آج احراریوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ذرا تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں اور اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ کے علماء کے فتاویٰ اور حکومت کے دباؤ کے ماتحت شیعوں کی قابلِ رحم حالت کو اگر ایک دفعہ یاد کرکے ’’آنچہ برخود مپسندی بردیگراں نیز مپسند‘‘کے مقولہ کو پیش نظر رکھیں تو یقین ہے کہ ان کا ضمیر ان کو ضرور ملامت کرے۔ بشرطیکہ ضمیر کی آواز بھی باقی ہو اور (الشّمس:۱۱) کی کیفیت نہ طاری ہوچکی ہو۔خادم ؔ

۵۔قاضی ثناء اﷲ صاحب پانی پتی :۔’’جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ صحابہؓ آپس میں بغض اور دشمنی رکھتے تھے وہ شخص قرآن کا منکر ہے اور جو شخص ان (صحابہؓ)کے ساتھ بغض اور خفگی رکھتا ہے قرآن میں اس کو کافر کہا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا اﷲ تعالیٰ نے (الفتح:۳۰)‘‘

(مَالَابُدَّ مِنْہُ۔مترجم اردو شائع کردہ ملک دین محمد اینڈسنز مطبوعہ دین محمدی الیکڑک پریس لاہور صفحہ ۱۱فصل نعت جناب رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم)

۶۔علماء اہل حدیث کافتویٰ شیعوں کے بارے میں :۔شیخ عبدا لحق محدث دہلوی:۔

’’شیعہ پانچ مذاہب کفار کا مجموعہ اور خلاصہ ہیں۔ یعنی یہود، نصاریٰ، مجوس، صائبین، ہندو‘‘

(تحفۂ اثنا عشریہ قلمی صفحہ ۵۰۲ نیز صفحات ذیل:۔ صفحہ ۵،۶،۴۵۶،۵۰۱،۵۰۳وصفحہ ۵۰۴)

ب۔نواب صدیق حسن خاں صاحب آف بھوپال:۔ ’’روئے زمین پر جس قدر فرقہ خبیثہ موجود ہے وہ کسی ایک اصحابِ رسولؐ اﷲ کو کافر کہہ کر کافر ہوگیا ہے۔ جب وہ اصحابِ رسو ل اﷲ کو کافر کہتے ہیں تو کس طرح کافر نہیں۔یہ اسلام کے دشمن ہیں جو ان کو کافر نہیں کہتا وہ بھی کافر ہے۔‘‘

(منقول از سراج الوہاج جلد ۲صفحہ۵۷۶و۵۷۷از حسن بن علی الحسینی القنوجی مطبع صدیق الکائن۔ بھوپال ۱۳۰۱ھ)

۷۔اہلسنت والجماعت کے متعدد علماء نے اپنے دستخطوں اور مہروں سے شیعوں کے خلاف مندرجہ ذیل فتویٰ کفر صادر کیا۔

’’فرقہ امامیہ منکرِ خلافتِ صدیق اندو ودر کتب فقہ مسطور است کہ ہر کہ انکارِ خلافتِ حضرت صدیق نمائد منکرِ اجماع قطع گشت وکافر شد……پس درحق ایشاں نیز حکمِ کفار جاری است۔‘‘

(ردِّ تبرا صفحہ ۲۰، جواب استفتاء نمبر ۱از سید الفت حسین مطبوعہ نصرالمطابع دہلی)

۲۔اہلسنت والجماعت کے خلاف شیعوں کا فتویٰ کفر

الف۔’’اہلسنت یہود ونصاریٰ سے بدتر ہیں۔‘‘

(تحفہ اثنا عشریہ قلمی صفحہ ۴۷۰نیز حدیقہ شہداء صفحہ ۶۵)

ب۔اگر کسی سنی کے جنازہ پر شیعہ حاضر ہواور نماز جنازہ پڑھنی پڑجائے تو میت کے حق میں یہ دعا کرے۔

’’اَللّٰھُمَّ اَمْلَاجَوْفَہٗ نَارًا وَ قَبْرَہٗ نَارًا وَسَلِّطْ عَلَیْہِ الْحَیَّاتَ وَالْعَقَارِبَ۔‘‘

(جامع العباسی دربیان نماز واجب وسنت باب دوم فصل نمبر ۸ہشتم)

’’یعنی اے اﷲ! اس کے پیٹ اور قبر کو آگ سے بھر دے! اور اس پر سانپ اور بچھو مسلط کردے۔‘‘

اہلحدیث کا اہلسنت پر فتویٰ کفر

الف۔’’چاروں اماموں کے پیرو اور چاروں طریقوں کے متبع یعنی حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی اور چشتیہ وقادریہ ونقشبندیہ ومجددیہ سب لوگ کافر ہیں۔‘‘

(جامع الشواہد صفحہ ۲ بحوالہ الاعتصام السنۃ مطبوعہ کانپور صفحہ ۷و۸)

ب۔’’کذب کو قرآن وحدیث میں برابر شرک کے رکھا ہے اس لیے مقلدین پر اطلاق لفظ مشرکین کا تقلید پر اطلاق لفظ شرک کا کیا جاتا ہے دنیا میں آج کل اکثر لوگ یہی مقلد پیشہ ہیں۔(یوسف:۱۰۷)یہ آیت ان پر بخوبی صادق آتی ہے۔ (اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۶ از نور الحسن خان ۱۳۰۱ھ)

ج۔کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین ان مسائل میں (اوّل) یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً ﷲ کا حاضر وناظر جان کر ورد کرنا جائز ہے یا نہ اور اس ورد کا پڑھنے والا کیسا ہے؟

الجواب:۔’’جس کا یہ عقیدہ ہے وہ مشرک ہے جو شخص مجوز اور مفتی ان امور کا ہے وہ رأس المشرکین ہے۔اس کے پیچھے نماز درست نہیں اور اس طرح کا اعتقاد رکھنے والا چاروں مذہب میں کافر اور مشرک ہے۔‘‘ (مجموعۂ فتاویٰ صفحہ ۵۲ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور)

د۔کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس امر میں کہ یہ گروہ مقلدین جو ایک ہی امام کی تقلید کرتے ہیں۔اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں یا نہیں ـ؟اور ان کے پیچھے نماز درست ہے یانہیں؟اور ان کو اپنی مسجد میں آنے دینا اور ان کے ساتھ مخالطت اور مجالست جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:۔ بیشک نماز پیچھے ایسے مقلدین کے جائز نہ ہوگی کہ ان کے عقائد اور اعمال مخالف اہل سنت والجماعۃ ہیں بلکہ بعض عقیدے اور عمل موجب شرک اور بعض مفسد نماز ہیں۔ایسے مقلدوں کو اپنی مسجدوں میں آنے دینا شرعاً درست نہیں۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ صفحہ نمبر ۵۴،۵۵مطبع صدیقی لاہور)

۳۔ اہلحدیث کے خلاف اہلسنت کا فتویٰ

ستر علماء اہلسنت والجماعۃ کا فتویٰ:۔

الف۔فرقۂ غیر مقلدین جن کی علامت ظاہر ی اس ملک میں آمین بالجہر اور رفع یدین اور نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہے۔اہلسنت سے خارج ہیں اور مثل دیگر فرقِ مقلد رافضی وخارجی وغیر ہما کے ہیں۔ان کے پیچھے نماز درست نہیں۔ان سے مخالطت اور مجالست کرنا اور ان کو اپنی خوشی سے مسجد میں آنے دینا شرعاً ممنوع ہے۔‘‘

(جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد صفحہ ۳تا ۸ بحوالہ کتاب العتصام السنۃ مطبوعہ کانپور صفحہ ۷،۸)

ب۔’’تقلید کو حرام اور مقلدین کو مشرک کہنے ولا شرعاً کافر بلکہ مرتد ہوا۔‘‘

(انتظام المساجد باخراج اہل الفتن عن المساجد صفحہ ۷ مصنفہ مولوی محمد لدھیانوی)

ج۔’’غیر مقلدین سب بیدین پکے شیاطین پورے ملاعین ہیں۔‘‘

(چابک لیث بر اہلحدیث مصنفہ مولوی محمد ظہیر حسین اعظم گڑھی صفحہ ۳۴ صفحہ۳۵)

د۔علماء اور مفتیانِ وقت پر لازم ہے کہ بمجرد مسموع ہونے ایسے امر کے اس کے کفر اور ارتداد کے فتویٰ میں تردد نہ کریں۔ورنہ زمرۂ مرتدین میں یہ بھی داخل ہوں گے۔‘‘

(انتظام المساجد باخراج اہل الفتن عن المساجد صفحہ ۷)

ھ۔’’جو باوصف اطلاع احوال ان میں سے کسی کا معتقد ہو تو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے اور ان سفہاء اور ان کے نظراء تمام خبثاء جو شخص……ان ملحدوں کی حمایت اور مروت ورعایت کرے ان کی ان باتوں کی تصدیق وتحسین وتوجیہہ وتاویل کرے وہ عدو خدا، دشمن مصطفےٰؐ ہے۔‘‘

(چابک لیث بر اہلحدیث مصنفہ مولوی محمد ظہیر حسین اعظم گڑھی صفحہ۳۴ صفحہ۳۵)

۴۔دیوبندی کافر ومرتد

الف۔’’وَبِالْجُمْلَۃِ ھٰؤُلَآءِ الطَّوَائِفُ کُلُّھُمْ کُفَّارٌ مُرْتَدُّوْنَ خَارِجُوْنَ عَنِ الْاِسْلَامِ بِاِجْمَاعِ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘

(’’حُسَامُ الْحَرَمَیْنِ عَلٰی منحر الکفر والْمَیْن‘‘ مع سلیس ترجمہ اردو مسمّٰی مبین احکام وتصدیقات اعلام ۱۳۴۵ء مطبوعہ بریلی۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۶ھ بار اوّل۔ مصنفہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی صفحہ ۲۴)

یعنی یہ سب گروہ (یعنی گنگوہیہ، تھانویہ، نانوتویہ ودیوبندیہ وغیرہ) اجماع اسلام کے رو سے کفار اور مرتد اور دائرہ اسلام سے خار ج ہیں۔ یاد رہے مندرجہ بالا عربی عبارت اصل کتاب کے صفحہ ۲۴ پر ہے اور اردو ترجمہ صفحہ ۲۵ پر۔ خادم ؔ)

اس کتاب میں مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے (جو کہ فرقہ حنفیہ بریلویہ کے بانی تھے اور مولوی ابو الحسنات صاحب صدر جمعیت العلماء پاکستان اور ان کے والد مولوی دیدار علی مرحوم کے پیر ہیں)اپنا اور علماء حرمین شریفین کا متفقہ فتویٰ ان کے دستخطوں اور مہروں کے ساتھ شائع کیا ہے جس میں جماعت احمدیہ کے علاوہ دیوبندیوں کے تمام گروپوں کو بھی کافر ومرتد قرارد یا گیا ہے کتاب مذکور کے ٹائٹل پیج پر لکھا ہے :۔

’’جس میں مسلمانوں کو آفتاب کی طرح روشن کر دکھایا کہ طوائف قادیانیہ گنگوہیہ وتھانویہ ونانوتویہ ودیوبندیہ وامثالہم نے خدا اور رسول کی شان کو کیا کچھ گھٹایا۔ علمائے حرمین شریفین نے باجماع امت ان سب کو زندیق ومرتد فرمایا۔ ان کو مولوی درکنار مسلمان جاننے یا ان کے پاس بیٹھنے ان سے بات کرنے کو زہر وحرام وتباہ کن اسلام بتایا۔‘‘

گویا اس فتویٰ میں مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی اور ان کے مریدوں اور دیگر تما م دیوبندی خیال کے لوگوں کو ’’باجماع امت‘‘ کافر ومرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ثابت کیا گیا ہے اور ان کی تکفیر وتفسیق کو احمدی جماعت کی تکفیر و تفسیق سے ممیز نہیں کیا بلکہ ایک ہی رنگ میں بیان کیا ہے اور جیسا ’’اجماع امت‘‘ ایک کے خلاف ہے ویسا ہی دوسرے کے بھی خلاف ہے۔ پس آج تعجب ہے کہ مولوی عبد الحامد بدایونی اور نام نہاد جمیعۃ العلماء پاکستان کے صدر نے اپنے پیر اور علماء حرمین شریفین کے ان متفقہ فتاویٰ اور اجماعِ امت کے خلاف ایک نیا امتیاز کہاں سے پیدا کر دیا ہے۔

ب۔ پھر احمد رضا خان صاحب بریلوی نے محمد قاسم نانوتوی، مولوی اشرف علی تھانوی اور مولوی محمود الحسن وغیرہ دیوبندی مولویوں کی نسبت لکھا ہے:۔

’’یہ قطعاً مرتد وکافر ہیں اور ان کا ارتداد وکفر اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے۔ ایسا کہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد وکفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد وکافر ہے ……․ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی انہیں نما زنہ پڑھنے دیں……جو ان کو کافر نہ کہے گا وہ خود کافر ہوجائے گا اور اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہوگی ّ*** ہو گی از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی۔‘‘ (فتویٰ مذکورہ بالا)

۵۔حنفی بریلوی پر دیوبندی کا فتویٰ

الف۔ ’’مولوی احمد رضا خان بریلوی اور ان کے ہم خیال کافر۔ اکفر۔ دجالِ ما ئۃ حاضرہ۔ مرتد۔ خارج از اسلام۔‘‘

(رد التکفیر علی الفحّاش الشَّنظیر مصنفہ مولوی سید محمد مرتضیٰ دیوبندی مطبوعہ شمس المطابع مراد آباد شعبان ۱۳۴۳ھ)

ب:۔ فتاوی رشیدیہ (رشید احمد گنگوہی)حصہ سوم بار اوّل صفحہ ۳۲ میں ہے :۔

’’جو شخص رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا معتقد ہے سادات حنفیہ کے نزدیک قطعاً مشرک و کافر ہے…… شامی نے رد المختار کی کتاب الارتداد میں صاف طور پر ایسے عقیدہ رکھنے والے کی تکفیرکی ہے۔ اور جویہ کہتے ہیں کہ علم غیب بجمیع اشیاء آنحضرت کو ذاتی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا ہے۔ سو محض باطل اور خرافات میں سے ہے۔ ‘‘

اس فتویٰ پر بہت سے علماء دیو بند کی مہریں ہیں جن میں مولوی محمود الحسن دیو بندی بھی ہیں۔

ج۔ لیکن سید انور شاہ صاحب دیو بندی کا فتویٰ بایں الفاظ درج ہے:۔

’’بڑا تعجب ہے جو زمرۂ علماء میں ہو کر ایسے شخص کی تکفیر میں ترد د کرے۔ اور قطعاً ا س کو کافر نہ کہے۔ بھلاکوئی عالم کہہ سکتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا کی بتلائی سے بھی بعض چیزوں کی خبر نہ ہو، ہر گز نہیں۔ بڑا فتو ر تو وہ شخص بر پا کر رہا ہے جو ہر جگہ یہ کہتا پھرتا ہے کہ آپ کو جمیع اشیاء کا علم دیدیا گیا ہے حالانکہ یہ صریح شرک ہے اور تمام فقہاء متفق اللفظ ایسے شخص کی تکفیر کرتے ہیں۔ یہ شخص کس دلیل سے حجت پکڑ تا ہے۔ حالانکہ یہ تمام احادیث کے مخالف ہے۔‘‘

(اکفار الملحدین فی ضروریات الدین)

د۔ سوال:۔ جو شخص رسو ل اﷲ صلعم کو غیب دان جانے اس کے پیچھے نماز درست ہے یانہیں؟

الجواب:۔ از بندہ رشید احمد گنگوہی:۔ ’’جو شخص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو علمِ غیب جو خاصہ حق تعالیٰ ہے ثابت کرتا ہے اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہے۔ لِاَنَّہٗ کَفَرَ‘‘ (در المختار)

(فتاوی رشیدیہ حصہ سوم صفحہ ۱۱۳ ، نیا ایڈیشن جنوری ۱۹۷۱ء سعید کمپنی صفحہ ۶۴ و صفحہ ۶۵)

نوٹ:۔ مندرجہ بالا تمام فتاویٰ در بارۂ جماعتِ حنفیہ بریلویہ مولوی حسین علی آف واں بھچراں کی تصنیف بُلْغَۃُ الْحَیْرَانِکے آخر میں بطور تتمہ صفحہ ۱ تا ۴ تک یکجائی شائع شدہ موجود ہیں۔

ھ۔ مولوی مرتضی حسن ’’ناظم تعلیم دیو بند‘‘ کا فتویٰ بریلویوں کے خلاف ان کے ان عقائد باطلہ پر مطلع ہو کر بھی انہیں کافر و مرتد ملعون جہنمی نہ کہنے والا بھی ویسا ہی مرتد کافر ہے پھر اس کو جو ایسا نہ سمجھے وہ بھی ایسا ہی ہے۔‘‘ (اخبار وکیل امرتسر ۴ اکتوبر ۱۹۲۷ء)

و۔’’ کوکب الیمانی علی اولاد الزوانی……ان کتابوں میں ثابت کیا گیا ہے کہ ایسے عقائد والے کافر ہیں۔ا ن کا نکاح کوئی نہیں سب زانی ہیں۔‘‘ (بلغۃ الحیران آخر میں تتمہ صفحہ ۷ و صفحہ ۸)

۶۔سر سید احمد خان پر فتویٰ کفر

الف۔ ’’اس شخص کی اعانت کرنی اور اس سے علاقہ اور رابطہ پیدا کرناہر گز درست نہیں۔ اصل میں یہ شخص شاگرد مولوی نذیر حسین وہابی بنگالی دہلوی غیر مقلد کا ہے۔ یہ شخص بہ سبب تکذیب آیاتِ قرآنی کے مرتد ہو کر ملعونِ ابدی ہوا اور مرتد ہوا۔ ایسا مرتد کہ بلا قبولِ اسلام اسلامی عملداری میں جزیہ دے کر بھی نہیں رہ سکتا ، مگر اہل کتاب اور ہنود وغیرہ جزیہ دے کر اسلامی عملداری میں رہ سکتے ہیں۔ گویا نہایت سخت کافر و مرتد ہے۔ ‘‘ (انتظام المساجد صفحہ ۱۳ تا صفحہ ۱۵ مصنفہ مولوی محمد لدھیانوی)

ب۔ مولونا الطاف حسین حالیؔ لکھتے ہیں:۔

’’سر سید کو ملحد۔ لامذہب۔ کرسٹان۔ نیچری۔ دہریہ۔ کافر ۔ دجال اور کیا کیا خطاب دیئے گئے ان کے کفر کے فتوؤں پر شہر شہر اور قصبہ قصبہ کے مو لو یوں سے مہریں اورد ستخظ کرائے گئے۔ یہاں تک کہ جو لوگ سر سید کی تکفیر پر سکوت اختیار کرتے تھے ان کی بھی تکفیر ہونے لگی۔‘‘

(حیات جاوید حصہ دوم صفحہ ۲۷۸ پانی پتی ۱۹۰۲ء)

ج۔ مکہ معظمہ کے مذاہب اربعہ کے مفتیوں نے جو فتویٰ سر سید احمد خاں پر لگایا وہ یہ ہے:۔

’’یہ شخص ضَالّ اور مضِلّ ہے۔ بلکہ و ہ ابلیس لعین کا خلیفہ ہے کہ مسلمانوں کے اغوا کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا فتنہ یہود و نصاریٰ کے فتنے سے بھی بڑھ کر ہے خدا اس کو سمجھے…………ضَرب اور حبس سے اس کی تادیب کرنی چاہیے۔‘‘ (ایضاً)

علماء مدینہ کا فتویٰ:۔

’’اگر اس شخص نے گرفتاری سے پہلے توبہ کر لی…… تو قتل نہ کیا جائے ورنہ اس کا قتل واجب ہے دین کی حفا ظت کے لئے اور وُلاۃ امرپر واجب ہے کہ ایسا کریں۔‘‘ (ایضاً)

د۔ علیگڑھ یونیو رسٹی کے متعلق علماء حرمین شریفین کا فتویٰ:۔

’’یہ مدرسہ جس کو خدا برباد اور اس کے بانی کو ہلاک کر ے اس کی اعانت جائز نہیں۔ اگر یہ مدرسہ بن کر تیار ہو جائے تو ا س کو منہدم کرنا اور اس کے مددگاروں سے سخت انتقام لینا واجب ہے۔‘‘

(حیاتِ جاوید مصنفہ مو لانا حالیؔ جلد ۲ صفحہ ۲۸۸ مطبوعہ بار اوّل)

نوٹ:۔ احباب علماء کے فتاویٰ تکفیر کی زیادہ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں مقدمۂ بہاو لپور صفحہ ۱۵۷ و نیز رسالہ ’’حربہ تکفیر اور علمائے زمانہ‘‘ مطبوعہ قا دیان ۱۹۳۳ء۔ خلاصہ کلام صرف اس قدر ہے کہ مسلمان کہلانے والے فرقوں میں سے ایک فرقہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر باقی ۷۲ فرقوں نے متفقہ طور پر کفر کا فتویٰ نہ دیا۔

۷۔دیگر کلمات کفر

الف۔’’ اگر یوں کہے کہ آسمان پر میرا خدا ہے اور زمین پر تُو ہے تو کافر ہوگا۔‘‘

(ما لابدمنہ مترجم اردو شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز لاہو ر صفحہ ۸۹ و فارسی نسخہ صفحہ ۱۴۶ مطبع نظامی کانپور ۱۲۸۰ھ)

ب۔’’ اگر کوئی بدوں گواہ کے نکاح کرے اور کہے کہ خدا ور رسولؐ کو گواہ کیا۔ یا کہے کہ فرشتوں کو گواہ کیا میں نے تو کافر ہو گا۔ ‘‘ (ایضاً)

ج۔’’ اگر کہے کہ روزی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن بندے سے ڈھونڈ ھ لینا چاہیے تو کافر ہو گا۔‘‘ (ایضاً)

د۔’’ اگر کہے کہ فلانا اگر نبی ہو گا تب بھی اس پر ایمان نہ لاؤں گا تو کافر ہوگا۔‘‘ (ایضاً)

’’اگر کوئی شخص گناہ کرے خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ اور دوسرا شخص اسے کہے کہ توبہ کر اور وہ کہے کہ میں نے کیا کیا ہے جو توبہ کروں تو کافر ہوگا۔‘‘

(مالا بدمنہ مترجم اردو شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز لاہو ر صفحہ ۸۹)

ر۔’’ اگر کوئی کہے کہ مجھ کو علم کی مجلس سے کیا کام یا کہے کہ جن باتوں کو علماء کہتے ہیں ان کو کون کر سکتا ہے…… تو کافر ہوگا۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۹۳)

ز۔ ’’روافض جو کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے دشمنوں کے خوف سے خدا تعالیٰ کے بعض احکام کو نہیں پہنچایا یہ کفر ہے۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۹۴)
 
Top Bottom