اعتراض 27۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
اعتراض 27۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ایام الصلح‘‘ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴ پر تحریر فرمایا ہے:۔
’’کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے ‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴)
لیکن دوسری جگہ کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ پر رقم فرماتے ہیں:۔
’’جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلّم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں ‘‘
(کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ)


جواب:۔ اس کے متعلق گذارش یہ ہے کہ اعترا ض کرتے وقت علمائے بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے از راہ تحریف ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴ کی نصف عبارت پیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت کو واضح کرنے کے لئے عبارت متنازعہ کا مکمل فقرہ درج ذیل ہے:۔

’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اِس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی اُستاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو مَیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسّر یا محدّث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویّت ہے جو نبوّت محمدیّہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرارِ دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔ ‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴)

معترض کی پیش کردہ عبارت کے سیاق میں ’’علم دین‘‘ اور سیاق میں ’’اسرارِ دین‘‘ کے الفاظ صاف طور پر مذکور ہیں۔ جن سے ہر اہلِ انصاف پر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس عبارت میں قرآن کریم کے ناظرہ پڑھنے کا سوال نہیں۔ بلکہ اس کے معانی و مطالب، حقائق و معارف کے سیکھنے کا سوال ہے اور عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آنے والے موعود کا نام جو مہدی رکھا۔ تو وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ علوم واسرارِ دین کسی انسان سے نہیں سیکھے گا۔ گویا حقائق ومعارف قرآن مجید میں اس کا کوئی استاد نہیں ہو گا۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس لحاظ سے میرا بھی کوئی استاد نہیں۔ جس سے میں نے ’’علم دین‘‘ یا ’’اسرار دین‘‘ کی تعلیم پائی ہو اور ظاہر ہے کہ قرآنِ مجید کے الفاظ کا بلا ترجمہ و تشریح کسی شخص سے پڑھنا۔ علم و اسرارِ دین سیکھنے کے مترادف نہیں ہے کیونکہ ’’الفاظ قرآن‘‘ اور ’’علمِ قرآن‘‘ میں خود قرآن مجید نے فرق کیا ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالی فرماتا ہے ’’‘‘ (سورۃ الجمعہ :۳) کہ رسول عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے اﷲ تعالیٰ کی آیات (یعنی الفاظ قرآن) پڑھتے، ان کا تزکیہ نفس کرتے اور ان کو کتاب (یعنی قرآن مجید) اور حکمت کا ’’علم‘‘ بھی دیتے ہیں۔

اس آیت میں کے الفاظ میں ’’الفاظ قرآن‘‘ کا ذکر فرمایا ہے اور فرما کر قرآن مجید کے مطالب و معانی اور حقائق و معارف کا تذکرہ فرمایا ہے پس مندرجہ بالا آیت سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ صرف ’’قرآن کا پڑھنا‘‘ علمِ قرآن حاصل کرنا نہیں ہے۔ یا یوں کہو کہ الفاظِ قرآن کے کسی شخص سے پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ علمِ دین بھی اس شخص سے حاصل کیا گیا۔

دوسری عبارت جو معترضین کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ سے پیش کرتے ہیں۔ اس میں صرف اس قدر ذکر ہے کہ چھ برس کی عمر میں ایک استاد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید پڑھا۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضور ؑ نے ’’علم دین‘‘ یا ’’اسرار دین‘‘ یا قرآن مجید کے حقائق و معارف یا معانی و مطالب کسی شخص سے پڑھے تا یہ خیال ہو سکے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی دونوں عبارتوں میں تناقض ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ کتاب البریۃ کی عبارت میں چھ برس کی عمر میں ایک استاد سے قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کا ذکر ہے اور ایام الصلح صفحہ ۱۴۷ کی عبارت میں کسی شخص سے قرآن مجید کے مطالب و معارف سیکھنے کی نفی کی گئی ہے۔ گویا جس چیز کی نفی ہے وہ اور ہے اور دوسری جگہ جس چیز کا اثبات ہے وہ اور ہے۔

ایک شُبہ اور اس کا ازالہ

ممکن ہے کوئی معترض یہ کہے کہ سیا ق و سباق دیکھنے کی کیا ضرورت ہے دونوں عبارتوں میں قرآن مجیدہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ہم تو دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنے لیں گئے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے۔ کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک جگہ ایک لفظ بول کر نفی کی ہو۔ اور دوسری جگہ اسی لفظ کا استعمال کر کے اس کا اثبات کیا گیا ہو۔ مگر اس کے باوجود مفہوم اس لفظ کا دونوں جگہ مختلف ہو۔ بغرض تشریح دو مثالیں لکھتا ہوں۔

ایک مثال

۱۔ قرآن مجید کی رو سے بحالت روزہ بیوی سے مباشرت ممنوع ہے۔ مگر بخاری، مسلم و مشکوٰۃ تینوں میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی مندرجہ ذیل روایت درج ہے:۔ ’’عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَ یُبَاشِرُ وَ ھُوَ صَائِمٌ وَ کَانَ اَمْلَکَکُمْ لِاِرْبِہٖ ‘‘

(بخاری جلد۱کتاب الصوم باب المباشرۃ للصائم و مشکوٰۃ کتاب الصوم باب تنزیہ الصوم و تجرید بخاری جلد ۱ صفحہ ۳۷۰)

کہ حضرت عائشۃ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم روزہ میں ازواج کے بوسے لے لیا کرتے تھے۔ اور ان سے مباشرت کرتے تھے۔ اس حالت میں کہ آپ کا روزہ ہوتا تھا۔ مگر آپ اپنی خواہش پر تم سب سے زیادہ قابو رکھتے تھے۔

اب کیا قرآن کریم کے حکم ’’‘‘ (البقرۃ :۱۸۸) کو مندرجہ بالا روایت کے الفاظ یُبَاشِرُ وَھُوَ صَائِمٌ کے بالمقابل رکھ کر کوئی ایماندار شخص یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی چیز کی نفی اور ایک ہی چیز کا اثبات کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حدیث مندرجہ بالا میں ’’مباشرت‘‘ سے مراد مجامعت نہیں۔ بلکہ محض عورت کے قریب ہونا ہے اور اس پر قرینہ اسی روایت کا اگلا جملہ وَکَانَ اَمْلَکَکُمْ لِاِرْبَہٖ ہے۔ لیکن اس کے بر عکس قرآن مجید میں لفظ مباشرت آیا ہے وہاں اس سے مراد ’’ــمجامعت‘‘ ہے۔ پس گو دونوں جگہ لفظ ایک ہی استعمال ہوا ہے مگر اس کا مفہوم دونوں جگہ مختلف ہے اور سیاق و سباق عبارت سے ہمارے لئے اس فرق کا سمجھنا نہایت آسان ہے۔

دوسری مثال

قرآن مجید میں ہی ہے۔ ایک جگہ اﷲ تعالی فرماتا ہے ’’ ‘‘ (النجم :۳) کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم ’’ضال‘‘ نہیں ہوئے اور نہ راہ راست سے بھٹکے، لیکن دوسری جگہ فرمایا۔ (الضحٰی :۸) کہ اے رسول!ہم نے آپ کو ’’ضال‘‘ پایا اور آ پ کو ہدایت دی۔

دونوں جگہ ’’ضال‘‘ ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ اس کی نفی کی گئی ہے مگر دوسری جگہ اس کا اثبات ہے کیا کوئی ایماندار کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے۔ ہر گز نہیں، کیونکہ ہر اہلِ علم دونوں عبارتوں کے سیاق و سباق سے سمجھ سکتا ہے کہ دونوں جگہ لفظ ’’ضال‘‘ ایک معنے میں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں جگہ اس کا مفہوم مختلف ہے۔ ایک جگہ اگر ’’گمراہ‘‘ مراد ہے اور اس کی نفی ہے۔ تو دوسری طرف تلاش کرنے والا قرار دینا مقصود ہے اور اس امرکا اثبات ہے۔ پس ہمارے مخالفین کا یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرنا کہ لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے سیاق و سباق عبارت دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ حد درجہ کی نا انصافی ہے۔

قرآنِ کریم کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی سے نہیں پڑھا

ہم معترض کی پیش کردہ دونوں عبارتوں پر ان کے سیاق و سباق کے لحاظ سے جب غور کرتے ہیں۔ تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ کی عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ میری چھ سات سال کی عمر میں میرے والد صاحب نے میرے لئے ایک استاد مقرر کیا۔ جن سے میں نے قرآن مجید پڑھا۔ اور ہر عقلمند انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ چھ سات سال کے عرصہ میں بچہ قرآن مجید کے معانی و مطالب اور حقائق و معارف سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ پس یہ امر تسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت کے والد بزرگوار نے چھ سات سال کی عمر کے بچہ کو معارفِ قرآنیہ سکھانے کے لیے ایک استاد مقرر کیا ہو۔ پس اس عبارت میں چھ سات سال کی عمر کا قرینہ ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ حضورؑ نے ا س حوالہ میں قرآن مجید کے مجرد الفاظ کااستاد سے پڑھنا تسلیم فرمایا ہے۔ مگر حضور ؑ کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن مجید کا ترجمہ یا قرآنی مطالب بھی حضور ؑ نے خدا کے سوا کسی استاد سے پڑھے ہوں۔ اس کے بالمقابل معترض کی پیش کردہ عبارت از ’’ایام الصلح‘‘ صفحہ۱۴۷ طبع اول میں حضرت ؑ نے صاف لفظوں میں یہ فرمایا ہے۔ علمِ دین اور ’’اسرار دین‘‘ کے لحاظ سے قرآن مجید کسی سے نہیں پڑھا۔ اور یہ حقیقت ہے جس کی نفی کسی دوسری عبارت میں نہیں کی گئی۔

اس امر کے ثبوت میں کہ ’’ایام الصلح‘‘ کی عبارت میں قرآن مجید کے الفاظ کا ذکر نہیں۔ بلکہ قرآن مجید کے معانی و مطالب کے کسی انسان سے سیکھنے کی نفی ہے۔ ہم ایام الصلح کی عبارت کا سیاق و سباق اور اس کا مضمون دیکھتے ہیں۔ ایام الصلح کو دیکھنے سے یہ معلوم ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس موقعہ پر اپنے دعویٰ مہدویت کی صداقت کے دلائل کے ضمن میں ایک دلیل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

(ا)’’ آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا ہے سو اِس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی اُستاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو مَیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسّر یا محدّث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویّت ہے جو نبوّت محمدیّہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرارِ دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔ ‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴)

(ب) اس مضمون پر بحث کرتے ہوئے ذرا آگے چل کر فرماتے ہیں:۔

’’مہدویت سے مراد وہ بے انتہا معارفِ الٰہیہ اور علومِ حکمیہ اور علمی برکات ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بغیر واسطہ کسی انسان کے علم دین کے متعلق سکھلائے گئے۔ ‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۶)

اس عبارت میں بعینہٖ وہی مضمون ہے جومعترض کی پیش کردہ عبارت میں ہے اور اس کے ساتھ ہی اس میں ان الفاظ کی مکمل تشریح بھی موجود ہے جن کے اجمال سے معترض نے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔

(ج) اگلے صفحہ پراسی مضمون کو مندرجہ ذیل الفاظ میں سہ کرّر بیان فرمایا ہے۔

’’رُوحانی اور غیر فانی برکتیں جو ہدایتِ کاملہ اور قوتِ ایمانی کے عطا کرنے اور معارف اور لطائف اور اسرار الٰہیہ اور علومِ حکمیہ کے سکھانے سے مراد ہے اُن کے پانے کے لحاظ سے وہ مہدی کہلائے گا۔ ’’

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۷)

اس عبارت میں بھی ’’مہدویت‘‘ کی تعریف کو دہرایا گیا ہے۔ ’’معارف‘‘۔ ’’لطائف‘‘ اور اسرارِ الٰہیہ اور علوم حکمیہ‘‘ کے الفاظ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ معترض کی پیش کردہ صفحہ ۱۴۷ والی عبارت میں بھی انہی امور کا ذکر ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ پڑھنے کا ذکر نہیں۔ جیسا کہ اس عبارت میں ’’علم دین اور اسرارِ دین‘‘ کے الفاظ اس پر گواہی دے رہے ہیں اور جن کے متعلق اوپر لکھا جا چکا ہے۔

(د) اسی دلیل کو اور زیادہ وضاحت سے بیان کرتے ہوئے صفحہ ۱۵۶ پر حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:۔

’’ہزار ہا اسرار علمِ دین کھل گئے۔ قرآنی معارف اور حقائق ظاہر ہوئے۔کیا اِن باتوں کا پہلے نشان تھا؟‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۰۴)

ـاس عبارت میں بھی حضور ؑ نے جن چیزوں کے خدا تعالیٰ سے سیکھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ قرآنی معارف و حقائق ہیں۔ نہ کہ الفاظ قرآنی!

(ھ) آگے چل کر بطور نتیجہ تحریر فرماتے ہیں:۔’’سو میری کتابوں میں اُن برکات کا نمونہ بہت کچھ موجود ہے۔ براہین احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی اُستاد کے جاری کئے ہیں ……اُس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب پیش کریں۔ ‘‘ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۰۶)

(و) پھر فرماتے ہیں:۔

’’جو دینی اور قرآنی معارف حقائق اور اسرار مع لوازم بلاغت اور فصاحت کے میں لکھ سکتا ہوں دوسرا ہر گز نہیں لکھ سکتا۔ اگر ایک دنیا جمع ہو کر میرے اس امتحان کے لئے آوے تو مجھے غالب پائے گی ۔‘‘ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۰۷)

(ز) اس عبارت پر حاشیہ لکھتے ہیں:۔ ’’مہوتسو کے جلسہ میں بھی اس کا امتحان ہو چکا ہے۔‘‘ (ایضاً حاشیہ)

(ح) اسی طرح صفحہ ۱۶۰ پر بھی حقائق و معارف اور نکات اور اسرارِ شریعت کے الفاظ موجود ہیں غرضیکہ ’’ایام الصلح‘‘ کے مندرجہ بالا اقتباسات سے جو سب کے سب معترضین کی پیش کردہ عبارت کے ساتھ ملحق ہیں یہ امر روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی انسان سے جس چیز کے پڑھنے کی نفی فرمائی ہے۔ وہ قرآنی الفاظ نہیں بلکہ حقائق و معارف قرآنیہ ہیں۔ حضرت اقدسؑ نے ’’ایام الصلح‘‘ یا کسی اور کتاب میں ایک جگہ بھی یہ تحریر نہیں فرمایا کہ میں نے قرآن مجید ناظرہ بھی کسی شخص سے نہیں پڑھا۔ نہ یہ چیلنج دیا ہے کہ میں استاد نہ ہونے کے باوجود قرآن مجید کے الفاظ اچھی طرح پڑھ سکتا ہوں۔ اور یہ کہ فن قرأت میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہاں حضور ؑ نے یہ دعویٰ ضرور فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف،مطالب اور نکات حضور ؑ کے الہام ’’اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنُ‘‘ (تذکرہ صفحہ۴۴ایڈیشن سوم) کے مطابق حضور کو براہ راست اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئے اور اس لحاظ سے یقینا حضور علیہ السلام نے قرآن مجید کسی انسان سے نہیں پڑھا۔ اور اسی امر کا دعویٰ حضور علیہ السلام نے ایام الصلح صفحہ ۱۴۷ پر بھی کیا ہے۔ جس کو معاندین جماعت احمدیہ انتہائی نا انصافی سے بطور اعتراض پیش کر کے نا واقف لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ؂


وَمِنْ تَلْبِیْسِہِمْ قَدْ حَرَّفُوْا الْأَلْفَاظَ تَفْسِیْرًا

وَقَدْ بَانَتْ ضَلَالَتُہُمْ وَلَوْ أَلْقُوْا الْمَعَاذِیْرًا

(المسیح الموعود ؑ)

(نور الحق۔ روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۱۷۸)
 
Top Bottom