اعتراض 21۔ حضرت مرزا صاحب نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سؤرکی چربی اس میں پڑتی ہے

mindroastermir

Administrator
رکن انتظامیہ
معیارِ طہارت

حضرت مرزا صاحب نے اپنے ایک مکتوب محررہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۰۳ء میں جو الفضل ۲۲؍ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ میں شائع ہوا صحابہؓ کے متعلق لکھا ہے کہ ’’اگر کپڑے پر منی گرتی تھی تو خشک ہونے کے بعد اس کو جھاڑ دیتے تھے …… ایسے کنواں سے پانی پیتے تھے جس میں حیض کے لتّے پڑتے تھے …… عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سؤر کی چربی اس میں پڑتی ہے …… کسی مرض کے وقت میں اونٹ کا پیشاب بھی پی لیتے تھے۔ (اخبار الفضل قادیان ۲۲ ؍فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹) ان امور کا ثبوت دو؟


جواب:۔ یہ سب امور حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ ثابت کرنے کے لیے تحریر فرمائے ہیں کہ محض شک اور شبہ کی بناء پر آدمی کو غسل کرنے اور کپڑے دھونے کا وہم نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام اسی خط میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اسی طرح شک و شبہ میں پڑنا بہت منع ہے۔ شیطان کا کام ہے جو ایسے وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ ہر گز وسوسہ میں نہیں پڑنا چاہیے گناہ ہے اور یاد رہے کہ شک کے ساتھ غسل واجب نہیں ہوتا اور نہ صرف شک سے کوئی چیز پلید ہو سکتی ہے۔…… آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب ؓوہمیوں کی طرح ہر وقت کپڑا صاف نہیں کرتے تھے‘‘۔ (اخبار الفضل قادیان ۲۲؍ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹)

اس کے بعد آپ نے وہ مثالیں درج فرمائی ہیں جن کا حوالہ معترض نے دیا ہے۔ باقی رہا ان امور کا جن کا حضورؑ نے ذکر فرمایا ثبوت۔ تو سنو:۔

۱۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی سمجھے کہ اسے رات کو احتلام ہوا تھا مگر تری نہ دیکھے تو اسے غسل کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر غسل نہیں ہے۔ (منتقٰی لابن تیمیہ صفحہ ۱۳۸ طبع اولیٰ مطبع رحمانیہ بمصر)

۲۔ ’’کُنْتُ اُفْرِکُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَ یَابِسًا ‘‘(منتقی لابن تیمیہ صفحہ ۲۸ باب ما جاء فی المنی طبع اولیٰ مطبع رحمانیہ بمصر) یعنی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کپڑے پر سے خشک شدہ منی کھرچ دیتی تھی۔

۳۔ حضرت ابو سعید الخدری ؓ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ہم بئر بضاعۃ کے پانی سے وضو کر لیا کریں۔ تو حضور صلعمنے فرمایا اَلْمَاءُ طَھُوْرٌ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْءٌ کہ یہ پانی پاک ہے پلید نہیں۔ پس بے شک وضو کر لیا کرو۔ حالانکہ وہیں پر لکھا ہے:۔

’’ھِیَ بِئْرٌ تُلْقٰی فِیْھَا الْحِیَضُ وَلُحُوْمُ الْکِلَابِ ‘‘ کہ یہ وہ کنواں تھا جس میں خون حیض اور کتوں کا گوشت پڑتا تھا۔ وہیں پر ابو داؤد کی روایت کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کنوئیں کا پانی صحابہ ؓ پی بھی لیا کرتے تھے۔ (منتقیٰ مؤلفہ ابن تیمیہ صفحہ۱۴ باب حکم الماء اذا لاقتہ النجاسۃ طبع اولیٰ مطبع رحمانیہ بمصر)

۴۔ عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھانے میں کوئی قابل اعتر اض بات نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں ہے۔ ’’‘‘ (المائدۃ) کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاتھ کا یا ان کا بنا ہوا کھانا حلال ہے۔ باقی رہا اس کے متعلق یہ مشہور ہونا کہ اس میں سؤر کی چربی ہوتی تھی۔ تو اس کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلا م کا مکمل فقرہ یوں ہے:۔

’’عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے۔ حالانکہ مشہور تھا کہ اس میں سؤر کی چربی پڑتی ہے اصول یہ تھا کہ جب تک یقین نہ ہو ہر ایک چیز پاک ہے۔ محض شک سے کوئی چیز پلید نہیں ہو جاتی‘‘۔

(اخبار الفضل قادیان ۲۲؍ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ مکتوب محررہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۰۳ء)

پس یہ کہنا کہ اس پنیر میں فی الواقعہ سؤر کی چربی ہوتی تھی حضرت اقدس علیہ السلام پر افتراء ہے حضرت اقدسؑ نے تو یہ فرمایا ہے کہ بات غلط طور پر لوگ مشہور کرتے ہیں۔ مگر چونکہ یہ بات غلط تھی اور صحابہ ؓکے علم کے رو سے بھی اس پنیر میں سؤر کی چربی نہ ہوتی تھی۔ اس لیے وہ اس کو استعمال کر لیتے تھے۔ غرضیکہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اور صحابہ ؓ کا یہ فعل قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کے عین مطابق تھا، لیکن ممکن ہے کہ معترض کی تسلی بغیر حوالے کے نہ ہو۔ اس لیے مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں ـ:۔

ا۔ ’’وَجُوْخٌ اِشْتَھَرَ عَمَلُہٗ بِشَحْمِ الْخِنْزِیْرِ وَ جُبْنٌ شَامِیٌّ اِشْتَھَرَ عَمَلُہٗ بِالْفَحْتِ الْخِنْزِیْرِ وَقَدْ جَآءَ ہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُبْنَۃٌ مِنْ عِنْدِھِمْ فَاکَلَ مِنْھَا وَلَمْ یَسْئَلْ عَنْ ذَالِکَ۔ ذَکَرَہٗ شَیْخُنَا فِی شَرْحِ الْمِنْھَاجِ ‘‘۔

(فتح العین شرح قرۃ العین مصنفہ علامہ شیخ زین الدین بن عبد العزیز مطبوعہ ۱۳۱۱ ھ صفحہ ۱۴ باب الصلوٰۃ)

ب۔ جوخ جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ چربی سؤر کے۔ اور پنیر شام کا جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ مایۂ سؤر کے۔ اور آیا جناب سرور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس پنیر ان کے پاس سے۔ پس کھایا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے۔ اور نہ پوچھا اس سے۔‘‘

(رسالہ اظہار حق در باب ’’جواز طعام اہل کتاب‘‘ شائع کردہ خان احمد شاہ صاحب قائمقام اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ہوشیار پور مطبوعہ مطبع اتالیق ہند لاہور صفحہ ۱۶ جس پر مولوی سید نذیر حسین دہلوی۔ مولوی محمد حسین بٹالوی۔ مولوی عبد الحکیم کلانوری، مولوی غلام علی قصوری اور دیگر علماء ہند کے دستخط و مواہیر ثبت ہیں مطبوعہ ۱۸۷۵ء)

۵۔ حضرت ام قبیس بنت محض اپنا ایک شیر خوار بچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائیں۔ بچہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ لکھا ہے کہ فَدَعَا بِمَآءٍ فَنَضَحَہٗ عَلَیْہِ وَ لَمْ یَغْسِلْہُ۔ (منتقیٰ مؤلفہ ابن تیمیہ صفحہ ۲۳) کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور اپنے کپڑے پر اس کا چھینٹا دیا۔ مگر کپڑے کو نہ دھویا۔

۶۔ عکل یا عرینہ کے چند مسلمان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے مدینہ میں بباعث نا موافقت آب و ہوا وہ بیمار ہو گئے۔ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو اونٹوں کا پیشاب اور اونٹنیوں کا دودھ پینے کا حکم دیا۔‘‘ (منتقیٰ مؤلفہ ابن تیمیہ صفحہ ۲۵)

غرضیکہ حضرت اقدس علیہ السلام نے جو اس ضمن میں تحریر فرمایا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی یا اعتراض کی گنجائش نہیں۔
 
Top Bottom